بیت المقدس


فلسطین میں یروشلم وہ جگہ ہے جو عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے مقدس ہے۔ اسے انبیاء کی سرزمین بھی کہنا غلط نہیں ہوگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔

چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا ”اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ“ یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں ”وادی النمل۔ چیونٹیوں کی وادی“ رکھ دیا گیا تھا۔ قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔ اسی شہر کے ہی مقام باب لد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔ فلسطین ہی ارض محشر ہے

مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔

سیدنا ابوذر رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ تو آپ صلعم نے فرمایا مسجد الحرام۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون سی مسجد بنائی گئی تو آپ سے نے فرمایا مسجد اقصی۔ میں نے پھر عرض کیا کہ دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پا لے وہیں نماز ادا کر لیں پس وہی مسجد ہے۔

اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کے لیے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کا اجاگر کرتا ہے۔

دوسری بار بیت المقدس صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ہجری کو فتح ہوا۔ اکیانوے سال کا قبضہ مسلسل جدوجہد سے بالآخر انہوں نے ختم کر دیا جب مسجد میں آئے تو مسجد کی حالت قابل زار تھی مسجد میں گھوڑوں کا اصطبل تھا جسے انہوں نے ختم کر دیا اور اس منبر کو مسجد میں نصب کیا جو آج تک نصب ہے۔

پھر خلافت عثمانیہ نے مسلسل مسجد اقصیٰ کے خدمت سنبھالے رکھی افسوس کہ خلافت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد بیت المقدس کے گردا گرد یہودی جمع ہوتے گئے اور مقامی فلسطینی باشندوں کا قتل عام کر کے قابض ہو گئے 1967 ء تک بیت المقدس کے ارد گرد مضبوط پنجے گاڑنے کے بعد اس مقدس جگہ کو آگ لگادی جس سے تاریخی سانحہ رونما ہوا اور یہودیوں کی کھلی اسلام دشمنی بھی سامنے آئی اسی دوران اس تاریخی ورثے یعنی منبر سلطان صلاح الدین ایوبی کا بہت سارا حصہ جل گیا آج اسے محفوظ بنانے کے لیے شیشے کی چاردیواری لگادی گئی ہے۔

1948 ء میں یہودیوں نے الگ ریاست کا اعلان کر دیا جسے قائداعظم نے ان الفاظ میں رد کیا کہ
”اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے ہم تسلیم نہیں کرتے“

اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر سے بچانے کے لئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ نے جام شہادت نوش فرمایا اور یہ سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ اگر اس شہر کو شہیدوں کا شہر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

مسلمانوں کے لئے بے پناہ اہمیت رکھنے والا یہ شہر آج کل یہودیوں کے قبضے میں ہیں جہاں مسلمانوں کے ساتھ سلوک کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آج کے دور میں جہاں ہر ملک نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کر لی ہے وہاں کسی ریاست کے ساتھ جنگ کا اعلان یا کسی جگہ کو فتح کرنا آسان نہیں ہے۔ ہر ملک جدید سے جدید جنگی ساز و سامان سے لیس ہے۔ اگرچہ ہمارے پاک فوج کو دنیا کی ”نمبر ون“ فوج ہونے کا اعزاز حاصل ہے مگر پھر بھی اس صورتحال میں یروشلم پر حملہ کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔

اس وقت یروشلم کو فتح کرنے کے لئے کم سے کم دس سال منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اگر ہم اگلے دس سالوں میں بھی بیت المقدس کو فتح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کے لئے ابھی سے منصوبہ بندی کر لیں۔

اپنی فوج کو مزید مضبوط اور مستحکم کر لیا جائے۔ جنگی ساز و سامان کو جدید سے جدید ترین بنایا جائے اور ساتھ ہی دشمن کے طاقت کا اندازہ لگا لیا جائے۔ دشمن کی طاقت کا اندازہ ہونے کے بعد خود کو، اپنی فوج اور طاقت کو دشمن سے چار گنا زیادہ کر لیا جائے۔ جنگیں صرف عسکری اور افرادی قوت سے نہیں جیتی جاتی۔ دوسروں کو کمزور کرنے کے ساتھ ہمیں خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اپنی اولاد کی تربیت بہادر جانبازوں کی طرح کرنی ہوگی۔ اپنے بچوں میں بیت المقدس فتح کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا ان میں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ اسلام کی تعلیمات اور فتوحات میں ہی ہماری عزت ہے۔

بیت المقدس کو فتح کرنے کے لئے عسکری طاقت استعمال کرنے سے پہلے دشمن کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی نیز ہر طرح سے کمزور کرنا ہوگا اور دوسروں کو کمزور کرنے کے لئے خود کا طاقتور ہونا بہت ضروری ہے۔ دشمن کی جڑیں کھوکھلی کرنی ہوگی۔ سیاسی ہلچل اور نا اتفاقی سے جب قوم بکھر جائیں گی تب ہی وہ ٹھیک وقت ہوگا جب ریاست پر حملہ کیا جائے۔ بیت المقدس جو کہ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں تینوں مذہبوں کے لئے مقدس ہے اور آج کل یہودیوں کے قبضے میں ہیں اس صورتحال میں اس مقدس شہر کو یہودیوں کے قبضے سے چھڑانا آسان نہیں ہوگا مگر مسلمانوں کا جذبہ ایمانی اور اللہ تعالٰی کی مدد سے ہی ہم کامیاب ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments