اپنے محسن سہیل وڑائچ کے لئے صحت کی دعا


یہ 1998 ء کے آخری مہینوں کا قصہ ہے، میں بی اے کے پیپر دے کر مانانوالہ کی گلیوں میں آوارہ گردی کرتا اور شعر کہتا پھرتا تھا، ساتھ ساتھ چودھراہٹ۔ تھانے کے ہر ایس ایچ او سے یاری، پاکستان پیپلز پارٹی کی کبھی ہلکی، کبھی تیز و تند سیاست، ساری رات گھر سے باہر، کچھ دوستوں کے پاس میری عشقیہ داستان کے قصے، سچ ہے کہ بچپن سے ہی ایسا ہوں، آوارہ، لڑاکا اور شاعر سا، پھر خیال آیا کہ کیوں نہ صحافت شروع کی جائے، باقی کی تعلیم صحافت میں رہتے ہوئے بھی پوری کی جا سکتی ہے، کیونکہ صحافت کا مجھے بچپن سے جنون تھا، مجھ سے بڑے سجاد انور روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ایڈیٹر میگزین تھے لیکن ڈرتا اُن سے کبھی اپنے شوق کا اظہار نہ کرتا، ہمارے مانانوالہ کے ایک دوست نجم سیٹھی صاحب کے اردو اخبار روزنامہ ”آجکل“ میں جاب کرتے تھے، اُن سے کہا کہ مجھے بھی اپنے نیوز پیپر میں لے چلو، بالاخر وہ مجھے اک دن ساتھ لاہور لے آئے، دفتر آنے سے قبل میں نے ایک آرٹیکل لکھ لیا تھا اور بے بہا امید تھی کہ یہ اخبار میں شائع ہو جائے گا۔

لاہور کا ریگل چوک، رونامہ آجکل کا آفس، محترم نوید چودھری صاحب ایڈیٹر، نجم سیٹھی، جگنو محسن اور خالد احمد صاحب کا اوپر والے فلور پر فرائیڈے ٹائم کے دفتر میں ہر دم ڈیرہ۔

قصہ مختصر کہ مجھے نیوز روم میں بٹھا دیا گیا، حسین کاشف صاحب میرے پہلے نیوز ایڈیٹر تھے، خبریں، ایڈیٹنگ، سُرخیاں، پٹیاں، لیڈ، سُپر لیڈ۔ نئی نئی دوستیاں۔

ساری رات نیوز میں گزر گئی، مانانوالہ واپسی سے پہلے روزنامہ آج کل چھپ کے آ گیا، ایک کاپی بغل میں دبا لی اور بس میں جا بیٹھا۔ راستے میں اخبار کھولا تو صفحہ دو پر میرا آرٹیکل چھپا ہوا تھا۔ سچ ہے، میری باچھیں کِھل گئیں، فرسٹ ٹائم میرا کوئی آرٹیکل یا کالم کسی اخبار میں شائع ہوا تھا، اگلے دن پھر ایک کالم لکھ کر لے گیا اور ایڈیٹوریل سٹاف کے حوالے کرکے نیوز میں سب ایڈیٹری کرنے بیٹھ گیا۔ پھر ہر روز صفحہ دو پر میرا کالم چھپنے لگا اور مجھے آفس جاتے ہوئے چھ راتیں ہو گئیں۔ بالکل چھٹی رات تھی جب ہمارے ایڈیٹر نوید چودھری صاحب اپنے کیبن سے نیوز روم کی طرف آئے، مجھے بغور دیکھا اور اپنے کیبن واپس جا کر نیوز ایڈیٹر حسین کاشف صاحب کو اپنے پاس بلا لیا۔

” ایہ نواں مُنڈا کیوں نیوز روم وچ بٹھا لیا۔ ؟ ایہنوں اٹھا دیوو، دفتر کول مزید سٹاف رکھن لئی بجٹ نہیں۔ “

نوید چودھری صاحب نے حسین کاشف کو آرڈر سنایا اور یوں میں روزنامہ آجکل کے آفس سے باہر نکل آیا۔

سچی بات ہے۔ دل چاہا کہ اونچی اونچی رونا شروع کر دوں، مجھے صحافت کا جنون تھا، میں نے کون سا جاتے ہی نوکری یا سیلری کی ڈیمانڈ کر دی تھی۔ ریگل چوک سے پیدل چلتا شملہ پہاڑی، پریس کلب کراس کرکے ڈیوس روڈ پر آیا اور روزنامہ جنگ کے آفس جا گھسا۔ سہیل وڑائچ صاحب کے سامنے پچھلے پانچ دنوں کے روزنامہ آجکل کی کاپیز رکھ دیں اور بولا۔ ”یہ دیکھیں! اخبار میں ہر روز پیج ٹو پر میرا کالم شائع ہوا اور نوید چودھری صاحب نے پھر بھی مجھے نیوز روم سے اٹھا دیا۔ “

اتنا کہتے ہی میں زاروقطار رونے لگ گیا۔

اب سہیل وڑائچ صاحب کے دلاسے تھے اور مَیں تھا۔ فوری طور پر کھانے کا آرڈر کیا گیا اور ساتھ ہی سودی بٹ صاحب کو فون ملا دیا گیا۔ اب سہیل وڑائچ صاحب، سودی بٹ صاحب اور نوید چودھری صاحب تینوں پی ٹی سی ایل کی لائنوں پر تھے اور سامنے میَں تھا۔

” اوہ یار۔ ایہنے دسیا ای نہیں کہ سجاد انور دا بھرا اے۔ آہو آہو۔ آرٹیکل سوہنا لکھدا اے، ایسے لئی میں ڈیلی پیج ٹُو تے چھاپ ریہا سی۔ پر ایہنے اے وی نہیں دَسیا کہ ایہ آرٹیکل ایہدا لکھیا ہوندا اے۔ اوکے اوکے۔ چھیتی ایہنوں واپس بھیجو۔ اج توں ایہدی نوکری پکی۔ نئیں نئیں چودھری صاحب! ہُن تے مچھی تہانوں پئے گئی۔ مچھی کھواؤ گے تے فیر ازالہ ہووے گا۔ “

سہیل وڑائچ صاحب، سودی بٹ صاحب اور نوید چودھری صاحب کے درمیان ڈائیلاگ جاری تھا کہ میَں جلدی سے اٹھا اور فوری آٹو پر بیٹھ کر روزنامہ آجکل کے آفس واپس آ گیا۔ نوید چودھری صاحب نے بہت ڈانٹا کہ کیوں چُپ چاپ آ کر نیوز روم میں بیٹھ گیا، مجھے بتاتا، اپنا تعارف کرواتا، چلو اٹھو! نیوز روم جاؤ، ابھی تمہاری نوکری کا لیٹر بنواتا ہُوں۔

جی دوستو! یہ ہیں سہیل وڑائچ صاحب، جن کا میَں بچپن سے فین ہُوں اور انہوں نے مجھے ہمیشہ بھائیوں جیسا پیار دیا، صحافت میں میری پہلی نوکری جناب نوید چودھری صاحب سے انہوں نے کروائی اور پھر نوید چودھری صاحب بھی میرے ہیرو بن گئے، نوید چودھری صاحب ان دنوں سٹی 42 کے گروپ ایڈیٹر ہیں لیکن ان کے ساتھ روزنامہ آجکل سے شروع ہونے والا میرا سفر روزنامہ دن اور روزنامہ پاکستان تک کئی سال جاری رہا، اسی دوران میں نے ایم اے پولیٹیکل سائنس کیا، ریڈیو براڈ کاسٹر بنا اور بطور پنجابی شاعر ادبی حلقوں میں مشہور ہونے لگا، نوید چودھری صاحب میرے پہلے استاد اور ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ دل کی گہرائیوں سے میری پسندیدہ شخصیت ہیں لیکن سہیل وڑائچ سے تعلق بہت پہلے کا ہے، اُنہوں نے ہمیشہ ایسے ہی ٹریٹ کیا جیسے لاڈلے چھوٹے بھائی کو کیا جاتا ہے۔

ایک دور تھا جب بڑے بھائی سجاد انور جنگ لاہور میں تھے اور روزنامہ جنگ کے آفس میرا آنا جانا لگا رہتا تھا، سجاد انور مجھ سے بڑے ہی نہیں بلکہ باپ کی جگہ ہیں، جب والد صاحب جگر کے کینسر جیسے موزی مرض کے باعث انتقال کر گئے تو سجاد انور نے ہم سب بہن بھائیوں کو باپ بن کر پالا، آج بھی اس دنیا میں اگر کسی کے پاس مجھے ڈانٹنے کا اختیار ہے تو وہ صرف سجاد انور ہیں جبکہ صحافت میں میرے پہلے مُحسن نوید چودھری صاحب اور سہیل وڑائچ ہیں، سچ کہوں تو مسکراتے چہرے اور دھیمے لہجے والے سہیل وڑائچ کو کبھی میَں نے غصے میں نہیں دیکھا، لیکن جس قدر پکے صحافی سہیل وڑائچ ہیں ہمارے ملک میں بہت کم اس پائے کے صحافی میسر ہیں، ان کا کالم ہو یا جیو نیوز پر شو، میَں نے آج تک اُن کے کسی پروگرام یا تحریر کو مِس نہیں کیا، دھیمے لہجے میں ایسے کاٹ دار جملے کسی اور اینکر کو کبھی نصیب نہیں ہوئے جو قدرت نے سہیل وڑائچ کو عطا کیے، میَں نے انہیں ہمیشہ سچا اور کھرا صحافی پایا، ایسا صحافی جس نے کبھی اپنے پیشے سے غداری کی اور نہ ہی کبھی ڈنڈی ماری، یقیناً میَں لا ابالی، لڑاکا، غصیلہ اور لاکھ برائیوں سے بھرا صحافی، ادنیٰ سا قلم کار اور شاعر جبکہ سہیل وڑائچ بین الاقوامی شہرت یافتہ بڑے صحافی اور اینکر۔

آج جب میَں نے اُن کا کالم پڑھا تو شدید دھچکا لگا کہ ایسی من موہنی شخصیت کو کیسے کورونا ہو گیا جو اتنے کیئر فُل رہے اور دوسروں کو بھی محتاط رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ میَں جانتا ہُوں، سہیل وڑائچ صاحب کی پی آر بہت زیادہ ہے، کسی کی غمی خوشی انہوں نے ساری زندگی نہیں چھوڑی، ہر کسی کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ہمیشہ اُن کا وطیرہ رہا ہے لیکن اُن کی آج کی تحریر کے مطابق وہ ان دنوں گھر سے بہت کم نکلتے تھے، وباء سے بچنے کی پوری احتیاط برتتے تھے کیونکہ وہ پہلے سے ہی شوگر اور ہارٹ کے مسائل سے دوچار ہیں لیکن میَں جانتا ہوں کہ وہ بہت دلیر اور بہادر شخصیت کے مالک ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں وہ جمہورہت پسند اور انسانی حقوق کے علمبردار رہے اور ہر قسم کی آمریت یا فرعونیت کے خلاف اُن کا قلم للکارے مارتا رہا، یہ بھی سچ ہے کہ وہ جنگ گروپ میں سب سے بڑے عہدے پر رہنے کے باوجود ہر دم میٹھے، ہر پل دھیمے اور ملنسار ہیں، اپنے دشمنوں اور کٹڑ نظریاتی مخالفین کے ساتھ بھی اُن کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ اور برادرانہ رہا، پاکستان بھر میں کہیں بھی انسانی حقوق کا کوئی مسئلہ ہو اور سہیل وڑائچ صاحب کا قلم میدان میں نہ اُترا ہو، ایسا ممکن ہی نہیں، جمہوریت کے حق میں اور ڈکٹیٹر شپ کے خلاف کہیں کوئی تحریک ہو اور سہیل وڑائچ صاحب بطور صحافی پیچھے رہے ہوں، یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا، میری دعائیں ہر پل اپنے ہیرو کے ساتھ ہیں، کوئی شک نہیں کہ اُن کی بیماری سے ان کی فیملی، سبھی دوست اور میرے جیسے اُن سے محبت کے دعویدار بیحد پریشان ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اس عظیم صحافی کا کبھی بال بیکا نہ ہو، یقیناً وہ پوری بہادری اور ہمت کے ساتھ اس موزی بیماری سے لڑیں گے اور ہم انہیں جلد صحت مند پاکے ”ایک دن جیو کے ساتھ“ کی نئی ایپیسوڑ میں دیکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments