ڈرگ روڈ کراچی پر بھٹکنے والی پراسرار دلہن کی کتھا


کراچی کے علاقے کارساز کے حوالے ساٹھ ستر کے دھائی کی ایک عوامی آسیب زدہ کھانی مشہور ہے۔ جس پر لکھا بھی گیا اور بھت سارے لوگوں نے اس کے حوالے سے اپنے تجربات بھی ایک دوسرے کو بتائے اور اس پر خوف اور روحانیت کی ایک پوری جھلک رہی۔ کہا جاتا ہے کہ کارساز شاہراہ فیصل یا ڈالمیہ روڈ پر سردیوں کی سنسان اور تاک راتوں میں ایک لڑکی دلھن کا سرخ یا سفید لباس پھں کر گھومتی ہے۔ اور آنے جانے والے گاڑیوں سے مدد طلب کرتی ہے اور پھر یکایک غائب ہو جاتی ہے۔

کہیں یہ کہانی کی لڑکی ہر سال سات جولائی کی رات  دیر گئے سفید کپڑوں میں وہاں نظر آجاتی ہے۔

یا پھر کھانی اس طرح سے بھی مشہور ہے کہ کارساز پر کسی طاق رات کو وہ زخمی حالت میں خون نکلتے ہوئے کسی ٹیکسی والے کو روکتی ہے اور اس کو شہر میں کسی دوسری جگہ کا پتہ دیتی ہے کہ وہاں چلنا ہے ڈائیور اس کی حالت دیکھ کر اس کو ہاسپیٹل چلنے کا کہتا ہے مگر لڑکی کہتی ہے میں ٹھیک ہوں اور اپنے گھر چلنے پر بضد ہوتی ہے گھر سے ہوکر ہی وہ ہاسپیٹل جانے کا کہتی ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور لڑکی کے مطلوبہ پتہ پر اس کو لے چلتا ہے۔ پتہ پر پہنچ کر لڑکی گاڑی سے اتر کر ڈرائیور کو کرایہ گھر سے لے کر آنے کا کہتی ہے اور سامنے گھر کے دروازے سے اندر چلی جاتی ہے اور پھر کافی دیر بعد بھی واپس نہیں آتی۔ جب ڈرائیور پریشان ہوکر دروازہ بجاتا ہے تو گھر سے ایک بوڑھا شخص آنکھوں میں نیند لئے باہر اتا ہے۔

ڈرائیور اس کو کہتا ہے کہ ایک باجی زخمی حالت میں یہاں پر آئی تھی اس نے کرایہ نہیں دیا اور اس کو ہسپتال بھی جانا تھا۔ بوڑھا شخص واپس گھر جاتا ہے اور کرایہ لے کر اتا ہے۔ ڈرائیور پوچھتا ہے وہ زخمی لڑکی کہاں ہے وہ ہسپتال نہیں جائے گی۔ تو بوڑھا شخص بتاتا ہے کہ یہاں کوئی لڑکی نہیں ہے۔ ڈرائیور کے اصرار پر بتاتا ہے کہ اصل میں وہ میری بیٹی ہے جس کا برسوں پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ اس کی روح ہر سال اس طرح گھر واپس آجاتی ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور کی حالت بری ہوجاتی ہے۔ اور وہ ٹیکسی میں اپنے گھر بھاگتا ہے اس کو کچھ دن بخار رہتا ہے۔

کہا جاتا تھا کہ وہ ایک ڈانسر تھی جس کو زخمی حالت میں وہاں پھینک دیا گیا تھا جس کی اسی حالت میں موت واقع ہوگئی تھی۔ اور وہ روح اس ڈانسر عورت کی ہے جو مدد کی لئے پکارتی ہے۔

پھر ایک اور کہانی ہے کہ یہ ایک دلہن تھی جس کا نئے بیاہتا جوڑے یعنی لباس عروسی میں ہی قتل ہوگیا تھا۔ یا پھر روڈ ایکسڈنٹ میں جان چلی ہوگئی تھی۔

اور اب اس دلھن کی روح وہاں آتی ہے۔
آسیب زدہ کہانیاں ادب کا ایک اہم حصہ رہا ہے اور یقیناً یہ بھی اسی طرح کی کہانی ہے۔

کچھ اس کھانی کا پلاٹ وحید مراد کی فلم ہل اسٹیشن سے بھی ملتا ہے جبکہ ہل پارک بھی قریب ہی موجود بھی ہے۔

مگر جب اس طرح کی کہانی ادب کے پیرائے اور بیانیہ سے نکل کر عوامی بن جائے اس کہانی کا پلاٹ، منظر نگاری اور کردار بھی اسی علاقے کے لوگ ہوں تو لوگ اس طرح کی کہانیوں کو فکشن سے نکال کر اپنی عام زندگی کا حصہ بنالیتے ہیں اور اس پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ وہ کہانی ان کی زندگی میں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ہر کوئی کسی اور واقف کار سے واقعات منسوب کر کے بیاں کرتا ہے فلاں میرے جاننے والے نے بتایا کہ اس سے ایسا ہوا تھا تاکہ کہانی کی پراسراریت برقرار رہے اور تفتیشی انداز سے سوالات کی بوچھاڑ نہ ہو اور تخیل کی پرواز قائم رہے۔

اس کہانی کو سن کر کوئی شخص ضعیف العتقادی اور دین سے دوری کا طعنہ بھی دے سکتے ہیں۔ تو کوئی اس کو مافوق الفطرت واقعات کے دائرے میں رکھ کر اس کو دقیانوسی تصورات کا شاخسانہ قرار دے سکتے ہیں۔

مگر اس کو کہانی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس دور کے کراچی کے عوامی نفسیات سمجھ آتی ہے کہ وہ کسی عورت کے ناحق قتل اور اس کی زیادتی کو انتہائی گھناؤنا فعل قرار دیتے ہیں کہ وہ اب تک اپنے قاتل کا پیچھا کر رہی ہے اور آنے جانے والوں سے مدد طلب کر کے ان کی نیت کا امتحان بھی لے رہے ہی کہ مدد دینے والا اجنبی سرد اور تاریک آدھی رات میں ایک نہتی زخمی لڑکی کو باحفاظت گھر تک چھوڑ کر آتا ہے یا اس کی مجرمانہ نیت سامنے آتی ہے۔

اس عوامی کہانی میں عوامی اخلاق اور اس اخلاق کو برقرار رکھنے کا خوف بھی شامل ہے کہ کیا پتہ جس نہتی لڑکی کو آپ نے لفٹ دی ہے کیا پتہ وہ بھٹکتی ہوئی روح ہو۔ آپ کی کسی بھی غیر اخلاقی حرکت اسے آپ کے گردن مروڑنے کا سبب مہیا کردے۔

کیا یہ کہانی برصغیر کے پارٹیشن کا تصوراتی خوف تھا کیا وہ اس دور کے پرتشدد واقعات کا خوف یا احساس گناہ تھا جو تخیل کو نئے سرے سے ترتیب دے رہا تھا۔

کیا ہندوستان سے لٹے پٹے آنے والے قافلوں کی حالت زار اور ان کی زندگی کی کہانیوں کو جمع کیا گیا؟ کیا یہاں سے ہندستان ہجرت کر کے جانے والے کراچی کے مقامی باشندوں کے دکھ کو لکھا گیا؟

پارٹیشن سے پہلے کا کراچی شہر اپنی عوامی یاداشت تقریباً ً کھو بیٹھا لیکن پارٹیشن کے بعد پنپتے کراچی کے اس دور میں اور کتنی عوامی کہانیاں تھیں جو کہ اسی طرح عوامی زندگی کا حصہ بن گئی تھی۔ لیکن بعد کی پرتشدد اور نفرت کی سیاست نفرت میں گم ہو گئیں۔ کیا اس عوامی ادب کے ان ان گنت قصے کہانیوں، دلچسپ کرداروں کی تخلیق کو جمع کیا گیا تھا۔ کم از کم مجھے کچھ پتہ نہیں۔

یقیناً یہ کراچی شہر کی عوامی زندگی کا دوسری مرتبہ میموری لاس (یاداشت کھو بیٹھنا ) ہے۔

کہ جب شہر کراچی میں بوری بند مسخ شدہ لاشیں کچرہ کنڈی سے ملنے لگیں پھر امن بحالی کے نام پر چلنے والے آپریشنز میں خون اور آگ اور چلنے والی گریٹ گیم کا دھوکا تھا جس نے بھی کراچی کے نوجوانوں کو مسخ شدہ نام دیے پھر ان کے والدین کو مسخ شدہ لاشیں دیں۔ کچھ بھی ہو۔ مگر اس کہانی سے کراچی کے ساتھ اس دور کے عوامی لگاؤ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ عوامی قصے اور کہانیاں تبھی اپنی جگہ بنا پاتی ہیں اور علاقوں کے ساتھ ایک جڑت پیدا کرتی ہیں جب لوگ ان قصے کہانیوں کے تخیل میں سانس لیتے ہیں۔ لیکن پھر کراچی کے ساتھ سچ میں خون آگ اور نفرت کا دور شروع ہواجوکہ واقعتاً آنکھوں دیکھا سچ تھا۔ جس نے اس طرح کے پر امن دور کے قصوں کی تخیل کو شکست دے دی۔

اور کل کی بات ہے کہ اسی کارساز پر ایک قافلے پر شب خون مارا گیا اور خون کے دھبے تو آج بھی وہیں موجود ہیں مگر نہیں ہے تو لہو کا سراغ اور دست قاتل غائب ہے۔ اور اس قافلے سے زندہ بچ جانے والی نہتی لڑکی کارساز کے کارزار کے مالکوں کے ہاتھوں ایک اور آسیب زدہ شہر میں بے دردی سے ماری گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments