پوسٹ مارٹم رپورٹ


پوسٹ مارٹم رپورٹ 1
” آئندہ 20۔ 15 روز میں ہم ونٹیلیٹرز میں خود کفیل ہو جائیں گے“ ، فواد چوہدری۔

آج فواد چوہدری صاحب کے منہ سے یہ خبر سن کر سمجھ نہ آیا کی ہماری کیفیت کیا ہو رہی تھی، کبھی تو یوں محسوس ہوتا کہ دل بلیوں اچھل رہا ہے۔ خوشی کے مارے کہ اب موت سے نبرد آزما ہونے کے 20 % مواقع بڑھ گئے ہیں اور کبھی اس خوف سے روح کپکپانے لگتی کہ اب 80 % تیاری پکڑ لی گئی ہے حکومت کی طرف سے ان ونٹیلیٹرز کو دنیا کی سستی ترین جانیں سپرد کرنے کی۔

خدارا ترس کھائیں ہم بے کسوں پر، کہ ہم جینے کی طلب تو نہیں کرتے، مگر موت کی آرزو بھی ابھی نہیں رکھتے۔ اگر استعداد بڑھانا ہی مقصود تھا تو آپ طبی تحقیق اور معاشرے کی تشکیل جدید اصولوں پر استوار کرنے کی کوئی کوشش کرتے، کوئی ایسا صد باب کرتے کی عوام میں یہ شعور پیدا ہو سکتا کہ وہ ونٹیلیٹرز کی بجائے اپنے پیاروں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے۔ بہرحال آپ حکم صادر فرمائیں، بے قدر اور بے قیمت جانیں آپ کی بنائی ہوئی مشینوں کی اہلیت جانچنے کو تیار کھڑی ہیں۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ 2 

” میں کیمرے کے سامنے کوئی بھی بیان نہیں دوں گا“ ، شہباز شریف کا نیب کے سامنے ان کیمرہ تفتیش سے انکار۔

قسم اس رب العزت کی جس کے ہاتھ میں خاکسار کی جان ہے، یہ خبر سن کر نہ ہی کانوں کو یقین آیا اور نہ ہی دل و دماغ نے اسے تسلیم کیا۔ وجہ کچھ اور نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ اس قوم کے عظیم رہنما تو آج تک کبھی چہل قدمی بھی کیمروں کی جھلملاتی روشنیوں کے بغیر کرنے کے روادار نہ تھے اور اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی عوامی مدد کی تشہیر بھی انہی کیمروں کے ساتھ کچھ یوں کیا کرتے تھے کہ حاتم طائی کی روح نہ صرف بے چین ہوا کرتی بلکہ انتہائی غیض و غضب کے عالم میں اس وقت کو کوستی جب یہ کیمرے نہ ہوا کرتے تھے اور لوگوں کی مدد بھی ہو جایا کرتی تھی۔

”بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے“ ۔ شہباز شریف صاحب گھبرائیے نہ، ہم ایسی قوم کہاں کہ جو آپ کے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتی پھرے، ہمیں تو اگر کچھ یاد ہو بھی تو وہ بھی صرف اور صرف آپ کے عظیم الشان اقوال اور جلسوں میں بجلی بھر دینے والی تقاریر کا جادو ہے، کہ جس کے زیر اثر ہم ابھی تک کچھ یوں مست پڑے ہیں، کہ جیسے نیند سے بیدار ہونے کو کفر جانتے ہیں۔ لہذا جو کرنا ہو دل کھول کر کریں، یہ بھوکی ننگی پبلک آپ کے تلوے چاٹنے کو ہی اپنی آبرو سمجھتی ہے۔ باقی رہ گئی سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات تو اس کی بھی آپ فکر نہ کریں، ہم عوام خود اپنے آپ کو ہی ان سڑکوں پر گھسیٹتے پھر رہے ہیں۔ جیسے کہ ”تصور جاناں کیے ہوئے“ ۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ 3 

”میں اپنے بچوں اور بیوی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں“ ، شہباز شریف کا نیب کو اس سوال کا جواب، جس میں ان کے بیوی بچوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہونے والی رقوم سے متعلق پوچھا گیا تھا۔

یہ تاریخی جملہ کہہ کر شہباز شریف صاحب نے قیامت کے اس منظر کی کچھ ایسی تصویر کشی کی ہے کہ زباں عش عش کر اٹھی ہے، کہ جب نہ ہی ماں کو بچوں کی فکر ہوگی اور نہ ہی باپ اپنے اہل و عیال کے کیے کا ضامن۔ مگر شاید شہباز شریف صاحب یہ بیان ذرا جلدی میں دے گئے، کوئی انہیں بتائے کہ سرکار ابھی قیامت نہیں آئی کہ ابھی چند نشانیاں باقی ہیں ابھی سے اپنے آپ کو اپنے اہل و عیال سے علیحدہ کر دینا بھلا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ“ ہم تو باقی ماندہ قیامت کی نشانیاں بھی آپ ہی کے ہاتھوں سرانجام دلوانا پسند کریں گے، بلکہ اگر ہو سکے تو طبل قیامت بجانے کا سہرا بھی آپ ہی اٹھا لیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments