وینس: پانی پر تیرتا شہر


وینس جانے کی آرزو ہر سیاح کے دل کے کسی نہ کسی گوشے میں موجود ہوتی ہے۔ وقت، حالات اور مقدر کے الٹ پھیر کا کیا پتہ کہ کون سی آرزو کب پوری ہو جائے۔

یہ وسط جولائی کے دن تھے اور مجھے اٹلی کے تاریخی شہر اور فیشن کے مرکز میلان آئے دو دن ہوگئے تھے۔ میری فلائیٹ تین دن بعد کی تھی۔ اب ان تین ورکنگ ڈیز میں کوی اور کام بھی نہیں تھا۔ میری برسوں کی خواہش پوری ہونے میں بس تھوڑی سی ہمت اور کچھ منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔

ہائی سپیڈ ٹرین اگرچہ کم وقت میں منزل مقصودتک پہنچا دیتی ہے۔ سفری بجٹ میں میرا ہاتھ یورو، ڈالرز اور پاؤنڈز میں ذرا تنگ پڑتا ہے۔ اس لئے 20 یورو کا سستا ٹکٹ لے کر ٹرین اطالیہ کے ذریعے وینس جانے کا فیصلہ کیا۔ ٹرین کو چلے کچھ دیر ہوی تھی۔ ٹرین بیرگامو اور بریشیا کے انڈیسڑیل زون سے گزر رہی تھی۔ اطالوی ٹکٹ کنڈیکٹر نے ٹکٹ طلب کیا اور دیکھنے بعد آگاہ کیا کہ میں نے اسٹیشن پہ لگی سٹمپ مشین سے اسے پنچ نہیں کیا۔

اس لئے اس پر 50 یورو جرمانہ دینا پڑے گا۔ میں نے بہت کہا کہ بھائی مجھے اس ملک میں نازل ہوئے ابھی صرف دو دن ہوئے ہیں اور پاسپورٹ پر اس کی گواہی موجود ہے۔ اگلے دو دن بعد اس ملک کو چھوڑ دینا ہے۔ زندگی میں پہلی بار اٹلی میں ٹرین استعمال کی ہے۔ اس لئے اس ناواقف حال پر رحم کیا جائے اور وارننگ ہی کو میرے واسطے کافی سمجھا جائے۔ اس نے نہ ماننا تھا اور نہ ہی مانا۔ اس 50 یورو کا دکھ آج بھی تازہ ہے۔

میلان سے وینس تک کا تمام راستہ انگور کی فصل کی کاشت سے پٹا پڑا ہے۔ کالی مٹی سے زمین کی مضبوطی اور زرخیزی ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں کے انگور کھانے کی بہ نسبت شراب بنانے کے کام زیادہ آتے ہیں۔ ٹرین کے ساتھ ساتھ موٹروے بھی ہمراہ چلتا ہے۔ اس پر لگے ونیزیا ( Venezia ) کے بورڈ دور سے نظر آتے رہے۔ اسی راہ میں شکسپیر کے مشہور ڈرامہ ”رومیو جولیٹ“ کی ہیروئن جولیٹ کا شہر ”وی رونا“ بھی پڑتا ہے۔ اسی سفر میں اس شہر میں آنے اور بعد ازاں وی رونا آئر پورٹ سے سفر کرنے کا موقع بھی میسر آیا۔

وینس کا ٹرین اسٹیشن سانتالوسیا ( Santa Lucia) فلورنس کے ٹرین اسٹیشن سانتا ماریا سے نام اور شکل میں کافی مشابہت رکھتا ہے۔ ٹرین اطالیہ پانی پر بنے ٹریک سے ہوتی ہوی سانتا لوسیا اسٹیشن تک پہنچی۔ ٹرین اسٹیشن سے باہر نکلا تو اندازہ ہوا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ کہیں پڑھا تھا کہ بندہ وینس ٹرین اسٹیشن سے نکل کر نہر میں گرتے گرتے بچتا ہے۔ یہ صیحیح بھی ہے۔ ٹرین اسٹیشن کے بالکل سامنے سڑک کے بجائے وینس کی مشہور زمانہ نہر ”گرینڈ کنال“ ہے۔ یہاں بس، ٹیکسی اور ٹرام کے بجائے واٹر بس، بوٹز اور اسٹیمرز موجود تھے۔ سب سے پہلے اسٹیشن سے نکل کر بائیں جانب گرینڈ کنال کے اوپر بنے سفید مخروطی پل پر چڑھ کر اپنے آپ کو وینس میں ہونے کا یقین دلایا۔

وینس سو سے زائد چھوٹے جزیروں پر مشتمل شہر کا نام ہے۔ ان جزیروں کو سینکڑوں خوبصورت پلوں کے ذریعے آپس میں ملایا گیا ہے۔ وینس میں سڑکوں کے بجائے بے شمار نہریں اور واٹر ویز (Water ways) ہیں جن میں اسٹیمرز، بوٹز، واٹر ٹیکسی، پبلک واٹر بس (Vaporetto) اور کشتیاں (گنڈولے ) آمدورفت کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ماضی میں وینس کا تجارت میں نمایاں مقام رہا ہے اور وینس کے تاجر پوری دنیا میں جانے مانے رہے ہیں۔ آج وینس کا شمار دنیا کے مشہور ترین اور رومینٹک شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ شہر ہمیشہ محبت کرنے والوں سے آباد رہیتا ہے۔ محبت کے دوام اور اس کی سند حاصل کرنے کے لئے لوگ اس کی طرف رخ کرتے آئے ہیں اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ ان محبت کرنے والوں میں ہم جیسے جہاں گردی کا شوق رکھنے والے بھی وینس میں نظر آ جائیں گے۔

وینس میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ تاہم گرینڈ کنال میں سفر، وینس کے دل سینٹ مارکو سکوآئر (Piaza San Marco) پر کچھ وقت ٹھہرنا اور پانی پر رواں گنڈولے کا سفر میرے نزدیک حاصل وینس ہوں گے۔ میں نے اسٹیشن کے سامنے گرینڈ کنال سے پبلک واٹر بس لینے کے بجائے سینٹ مارکو جانے کے لئے پیدل چلنے کو ترجیح دی۔ ایک تو کافی وقت موجود تھا دوسرا میں وینس کی گلیوں میں خوب چلنا بھی چاہتا تھا۔ میری یہ خواہش صیحیح معنوں میں پوری ہوی۔

تھوڑی سی بارش کے بعد چمکتی دھوپ میرے ہمراہ تھی۔ ریلوے سٹیشن سے سینٹ مارکو کے سائن کو فالو کرتے ہوئے وینس کی تنگ لیکن خوشنما گلیوں میں رواں سیاحوں کے سست رو ہجوم میں داخل ہوگیا۔ گرینڈ کنال دائیں طرف میرے ساتھ ساتھ تھی۔ پرانی بوسیدہ عمارتوں کی کھڑکیوں سے جھانکتے پھول بے حد دلکش لگ رہے تھے۔ مختلف خوبصورت مخروطی پلوں سے اترتے چڑھتے، دکانوں کے نفیس شوکیسوں میں سجے سامان کو دیکھتے میں تاریخی ریالٹو برج پر پہنچ گیا۔

یہ قدیم ترین محرابی پل دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پل پر سیاحوں کا جمگٹھا لگا ہوا تھا۔ ریالٹو برج سے گرینڈ کنال میں چلنے والی ٹریفک کا صیحیح معنوں میں اندازہ ہوتا ہے۔ استنبول کے ایمنیو کے علاقہ میں گلاٹا برج کے آس پاس جو ships کی ہلچل ( Hustle bustle ) ہوتی ہے ویسی ہی یہاں تصور کر سکتے ہیں۔ اس برج پر مختلف انواع کی دکانیں سامان آرائش سے دمک رہی تھیں۔ پل کے ایک کونے میں نوجوان موسیقاروں کا گروپ کورس میں کچھ گا رہا تھا۔ I am like Venice کے الفاظ ہی میرے پلے پڑ رہے تھے۔

یورپ میں ان دنوں تعطیلات ہیں۔ بڑے شہر اور ان کے مرکزی علاقے (Down Town) سنسان نظر آئیں گے۔ تاہم ٹورسٹ کی دلچسپی کے مقامات میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں ہوگی۔ یہی حال اس وقت وینس کا تھا۔ وینس کی دیدہ زیب گلیاں سیاحوں سے چھلک رہی تھیں۔ ریالٹو برج کے پہلو میں گرینڈ کنال کے ساتھ ساتھ بہت سے ریستوران، کافی اور آئس کریم کی دکانیں ہیں۔ سیاحوں کی بڑی تعداد پانی کے کنارے لگی کرسیوں پہ بیٹھ کر کافی سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔

میرا یہ احساس ہے کہ پورے یورپ میں سب سے اچھی کافی اٹلی میں ملتی ہے۔ میں بھی اپنی کافی اور ٹونا فش کا سینڈوچ لے کر بیٹھ گیا۔ کنال کے دوسری طرف فروٹ کی بہت سی دکانیں نظر آ رہی تھیں۔ سیاحوں کے علاوہ مقامی افراد لین دین میں مصروف تھے۔ گرینڈ کنال میں تیرتے گنڈولوں، سٹیمرز، اور سپیڈ بوٹز کی آمدورفت مسلسل جاری تھی۔ میں کافی دیر اس منظر کو دیکھتا رہا۔ لندن کے ٹریفالگر سکوآئر (Trafalgar Square) پر نیشنل آرٹ گیلری ہے۔

کچھ سال قبل اس کے ایک کمرے میں Canaletto (Giovanni Antonio) کی وینس پر بنی پینٹنگز دیکھی تھیں۔ شاید آج بھی یہ وہاں موجود ہوں۔ یہ پینٹگز کئی سو سال پرانی ہیں۔ جو منظر اس وقت میری آنکھوں کے سامنے تھا وہ ہو بہو ویسا ہی تھا جیسا Canaletto نے پینٹ کیا تھا۔ پانی پہ تیرتے مارکو پولو کے شہر وینس کا بنیادی نقشہ اور ماحول آج بھی ویسا ہی ہے جیسا صدیوں پہلے تھا۔

شاندار مکانات، سنگ مرمر کے محلات اور عالی شان گرجے دیکھتا، گلیوں گلیوں گھومتا، بازاروں کی خاک چھانٹتا، آخر کار سینٹ مارکو کے شہرہ آفاق سکو آئر جا پہنچا۔ آج کی تاریخ میں اس چوراہے پر زندگی کی گہما گہمی کے ساتھ حسن، عشق، فیشن اور دھن دولت کے نمایاں مظاہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ دیکھنے کو بہت کچھ یہاں ایک جگہ جمع ہوگیا ہے۔ سمندر اور اس کی موجوں پر چمکتی دھوپ، گھاٹ اور اس کی لہروں کے دوش پر ہلکورے لیتے گنڈولے، شاندار ریستوران اور ان کے سامنے کے طویل برآمدے، سینٹ مارک کا کلیسا اور اس کے ٹیرس پر لگے کانسی کے گھوڑے، ڈوجے پیلس اور اس سے جڑا آہوں کا پل، حسین مہین ہاتھ اور ان پر بیٹھے وینس کے کبوتر۔

وینس کے آبی شہر میں شام اترنے لگی تھی۔ میں نے سینٹ مارکو کی سوینئر شاپ سے ایک عدد ماسک بطور نشانی خریدا۔ گھاٹ پر لگی واٹربس پر سوار ہوگیا۔ گرینڈ کنال سے ادھ گھنٹہ میں سانتا لوسیا ٹرین اسٹیشن پہنچ گیا۔ کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام راستے روم جاتے ہیں۔ گزشتہ سال میں نے روم کے تریوی فوارے (Trevi Fountain) کے شفاف پانی میں سکہ ڈالتے ہوئے اپنے اللہ سے روم دوبارہ آنے کی دعا مانگی تھی۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اب میں روم جانے کے لئے وینس کے ٹرین اسٹیشن پر موجود تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments