انسانی ارتقا قرآن کی نظر میں


کسی بھی چیز کا درجہ بدرجہ ترقی کرنا ارتقا کہلاتا ہے۔ کائنات اور زندگی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ارتقا اس کائنات کی گھٹی میں شامل ہے۔ اگر مذہب کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیں تو کائنات عدم سے وجود میں آئی اور پھر مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے اس کی تشکیل ہوئی۔ ایسا نہیں ہوا کہ ایک دم سے سب کچھ ویسا بن گیا ہو جیسا اس وقت نظر آتا ہے۔ زندگی کی ابتدا بھی تدریجا ہوئی۔

اگر اس کو سائنس کی روشنی میں دیکھا جائے تو مذہب اور سائنس میں کہیں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ ابتدا میں زمین کا درجہ حرارت ایسا نہیں تھا کہ یہاں زندگی ممکن ہوتی۔ ہزاروں لاکھوں سال لگے اس کے درجہ حرارت کو اعتدال تک آنے میں۔ ان گنت سالوں تک اس پر بارش ہوتی رہی۔ پھر جاکر کہیں یہ کرہ اس قابل ہوا کہ یہاں زندگی ممکن ہو۔ پھر لاتعداد سالوں کے کیمیائی عمل سے گزر کر پانی سے زندگی کا آغاز ہوا۔ پھر زندگی پانی سے زمین تک پہنچی اور یوں یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔

قرآن پاک میں ان تمام سوالوں کا جواب پہلے سے موجود تھا جسے سائنس نے اپنایا مثلاً سورہ الانبیاء آیت نمبر 30 اردو مفہوم:

” کیا ان کافروں کو نہیں معلوم ہوا کہ آسمان اور زمین پہلے بند تھے پھر ہم نے انہیں کھول دیا“
سورہ نور آیت 45 اردو مفہوم:
” اللہ نے ہر چلنے والے کو پانی سے پیدا کیا۔ ۔ ۔ الخ“
سورہ مومنون آیت 18 اردو مفہوم:
” ہم نے آسمان سے ایک اندازے پر پانی اتارا پھر اسے زمین میں ٹھہرایا۔“
سورہ السجدہ آیت نمبر 5 اردو مفہوم:

” وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھر اس کی طرف عروج کرتا ہے ایک ایسے دور میں کہ اس کا اندازہ تمہارے ہزار دن کے برابر ہے“

اسی طرح بہت سے دیگر مقامات۔ ۔ ۔ جس کی تفصیل سے طوالت زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر ارتقا کے متعلق آیات موجود ہیں لہذا مطلق ارتقا کا قرآن اور سائنس میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔

اب آتے ہیں دور جدید میں پیش کردہ ڈارون کے نظریہ ارتقا کی طرف۔ اس نظرئیے کی بنیاد وہی قدیم نظریہ ہے جو کم و بیش ایک ہزار سال قبل الجاحظ نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ”کتاب الحیوان“ میں پیش کیا تھا۔ جس کے مطابق وہی جاندار بقا پاتا ہے جو اپنے ماحول سے مطابقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔

اس نظرئیے کے دو حصے ہیں۔ ایک مطلق زندگی اور جانداروں سے متعلق۔
دوسرا، صرف انسان سے متعلق۔

جہاں تک مطلق زندگی اور جانداروں کے متعلق بات ہے تو وہ کسی حد قابل قبول اور سائنسی ہے، کیونکہ اس کے بعض حصے آج بھی تشنہ ہیں جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ لیکن جہاں تک انسان کی بات ہے تو بطور مسلمان جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس میں بہت بنیادی خامی یہ ملتی ہے کہ ڈارون کے مطابق انسان دیگر حیوانوں کی طرح ترقی پاتا ہوا چمپینزی کے آبا و اجداد سے آگے بڑھتا ہوا ایک مقام پر اس سے الگ ہوا اور پھر ترقی کرتا ہوا انسان بنا۔ جبکہ قرآن میں اسے اول تا آخر ایک الگ مخلوق قرار دیاہے جوشروع سے ہی انسان تھی۔ گوکہ اس نوع نے بھی ارتقاکا سفر طے کیا جس کے شواہد بالصراحت قرآن میں موجودہیں لیکن ایسا کہیں نہیں کہ یہ کسی اور نوع سے ارتقا کرتا ہوا انسان تک پہنچا۔

انسانی تخلیق کے حوالے سے قرآن پاک میں متعدد آیات موجود ہیں جن میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ کہیں مٹی اور پانی کے ملاپ کی بات ہے تو کہیں پانی سے۔ لیکن کثرت مٹی اور پانی کے آمیزے کی ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ قرآن نے ایسا اسلوب کیوں اختیار کیا۔ اس کی وجہ جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ اس دور میں ایسے لوگ موجود تھے جو کسی بھی خالق کو نہیں مانتے تھے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا جینا اور مرنا زمانے کی گردش ہے اور کچھ نہیں۔ لہذا قرآن نے انہیں انسانی تخلیق کی مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح انسان کی بطور نوع، پیدائش مٹی یعنی ایک بے جان چیز سے ہوئی اور پھر اس کی نسل آگے بڑھی اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کیا جائے اور ایک نئی زندگی دی جائے۔

سورہ الحج آیت نمبر 5 اردو مفہوم:

” اے لوگو! تم قیامت کے روز دوبارہ پیدا ہونے کے شک میں ہو تو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ“

اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا انسان شروع ہی سے ویسا ہی ہے جیسا کہ آج ہے یا اس کے اجداد کسی اور جانور سے ملتے ہیں۔ یہاں پر ہم جدید نظریہ ارتقا کی بجائے صرف قرآن میں بیان کردہ حقائق کا جائزہ لیں گے۔

سورہ نور آیت نمبر 45 اردو مفہوم:

” اور ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا تو ان میں سے کوئی اپنے پیٹ پر چلتا ہے، اور ان میں سے کوئی دوپاؤں پر چلتا ہے اور کوئی چار پاؤں پر چلتا ہے۔“

اب اس آیہ کریمہ میں اللہ پاک نے انسان کے سوا تمام جانداروں کی تخلیق کی بات کردی۔

اس کے علاوہ جہاں جہاں دیگر جانداروں کی بات کی ہے وہاں ان کی تخلیق کو انسان کیے استفادے سے جوڑ کر انسان کو مرکزی حیثیت دے دی گئی۔ صرف جانوروں، پرندوں اور درختوں کی حد تک ہی نہیں بلکہ زمین وآسمان میں موجود ہر چیز پر انسان کو یوں فوقیت دی کہ انسان کو کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی۔

اب دیکھتے ہیں ان آیات کو جن میں انسان، آدم، بشر کی تخلیق کی بات کی گئی تو وہاں اسلوب صاف صاف بتا رہا ہے کہ کسی ایک نوع کی بات کی جارہی ہے۔

سورہ الحجر آیت نمبر 26
ولقد خلقنا الانسان من صلصال من حما مسنون۔
ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی پیدا کیا
سورہ السجدہ آیت نمبر 7
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدا خلق الانسان من طین۔
انسان کی اول پیدائش مٹی سے کی۔
سورہ ص آیت نمبر 71
واذ قال ربک للملئکۃ انی خالق بشرا من طین
اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں بشر کو مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں۔
الغرض متعدد مقامات پر انسان کی بطور الگ نوع تخلیق کی تفصیلات موجود ہیں۔
اب ہم مختصر جائزہ لیتے ہیں انسان کے بطور انسان ارتقا کا۔
سورہ کھف آیت نمبر 37 اردو مفہوم:
” جس نے تمہیں مٹی سے تخلیق کیا پھر نطفہ سے پھر تمہیں سنوار کر آدمی بنایا۔“
سورہ الاعراف آیت نمبر 11 اردو مفہوم:
” اور ہم نے تمہیں تخلیق کیا پھر تمہاری صورت سنواری پھر فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔“
سورہ۔ السجدہ آیت نمبر 8۔ 9 اردو مفہوم:
” پھر بے قدر پانی سے اس کی نسل بنائی پھر اس کو سنوارا پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونکا۔“
سورہ الانطار آیت نمبر 7۔ 8 اردو مفہوم:
” جس نے تمہیں تخلیق کیا پھر سنوارا پھر اعتدال پر لے کرآیا۔“

یوں جب ان تمام آیات کو ملا کر دیکھتے، غور کرتے اور سمجھتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کی تخلیق، پیدائش اور ارتقا ایک الگ نوع یعنی نوع انسان کے طور پر ہی ہوا۔ اور اسی میں شرف انسانی پوشیدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments