دکان تو بہر طور چلنی چاہیے


\"abdul-hai-kakar\"

ہمارے ایک صحافی دوست چھٹیاں منانے کہیں جاتے ہیں تو فون کر کے خبردار کرتے ہیں ’ہلکہ گورہ زہ خو روان یم خو چی دا جھگڑہ درنہ یخہ نہ شی۔ ‘ (میں جا تو رہا ہوں مگر یاد رکھیں جنگ ٹھنڈی نہیں پڑنی چاہیے۔ )

جب کسی دن قبائلی علاقے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوتا تو میرے ایک اور صحافی دوست کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے جو یوں منہ لٹکائے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے ان کا کوئی قریبی رشتہ دار اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا ہو۔

پاکستان کا کوئی اعلی سول اور فوجی اہلکار امریکی یاترا سے قبل شاید اپنے ماتحت متعلقہ وزراء یا آپریشن کمانڈر کو آنکھ مار کر یہی کہتا ہوگا ’میں جا تو رہا ہوں مگر خیال رہے کہ پیچھے سے طالبان کے خلاف کارروائی ٹھنڈی نہیں پڑنی چاہیے۔ ‘

ہاں اور سیاستدانوں کا کیا ہے، وہ تو ویسے بھی اقتدار کی رسہ کشی میں ہمہ وقت کسی بھی ایشو کو اٹھانے یا دبانے کی تلاش میں رہتے ہیں۔

ایسے میں مجھے کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، طالبان اور القاعدہ پرچون کی وہ دکان ہے جس میں ہر ایک کو اپنی پسند کا سودا ملتا ہے اور ان سٹیک ہولڈرز کے درمیان بظاہر ایک خاموش سی ’انڈر سٹینڈنگ‘ نظرآتی ہے کہ ’چاہے کچھ بھی ہو دکان تو بہر طور چلنی ہی چاہیے۔ ‘

یہ بلاگ 2009 میں بی بی سی اردو پر شائع ہوا اور مصنف کی اجازت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments