وزیراعظم اور کیا کر سکتے ہیں؟


جس کسی پر بھی گھریلو اخراجات کا تھوڑا بہت بوجھ برداشت کرنے کی ذمہ داری ہے ان سے بات کریں تو مایوس نظرآتے ہیں۔ تبدیلی اور نئے پاکستان کا ایک خوفناک منظر پیش کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو کا اختتامی جملہ یہی ہوتا ہے کہ ”نہ جانے اس ملک کا کیا بنے گا“ ۔ لیکن ان کو معلوم نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اور کر بھی کیا کر سکتے ہیں؟ جوکچھ، جتنا ان کے بس اور اختیار میں ہے اتنا ہی تو وہ کر رہے ہیں۔

اب آپ ہی بتا ئیں ماضی میں کسی نے چینی مافیا کے خلاف کمیشن بنا کر تحقیقات کی ہے؟ میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف، آصف علی زرداری کسی نے اس مافیا پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تھی؟ وزیراعظم عمران خان نے یہ کام کرکے دیکھا دیا۔ تحقیقات مکمل کردی۔ رپورٹ عام کردی گئی ہے۔ مقدمات درج کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ بس اتنا ہی ان کے اختیار میں تھا جو انھوں نے کرکے دیکھا دیا۔ یہ الگ بات چینی مافیا کا مرکزی کردار جہانگیر ترین بیٹے سمیت علاج کے لئے بیرونی ملک گیا ہے۔ حالات جیسے ہی سازگار ہوجائیں گے وہ واپس آ جائے گا۔ ویسے بھی ان کو بیرونی ملک جانے سے روکنے کی ذمہ داری اداروں کی تھی انھوں نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی تو اس میں وزیراعظم عمران خان کا کیا قصور، جتنا ان کے اختیار اور بس میں تھا وہ انھوں نے کرکے دکھایا۔

جن لوگوں پر چینی رپورٹ میں الزام ہے وہ اب بھی وفاق اور صوبوں میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اتحاد میں موجود ہے، تو کیا ہوا اب وہ ایک وزارت عظمیٰ کو جو بائیس سالہ جدوجہد کے بعد ہاتھ لگی ہے، وہ بائیس کروڑ لوگوں کے لئے قربان کر دیں؟ ہرگز نہیں۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے مواقع باربار نہیں ملتے اس لئے وہ اس قربانی سے گریز کر رہے ہیں۔ جتنا ان کے بس میں تھا اتنا وہ کرچکا ہے۔ اس سے زیادہ ان سے مطالبہ کرنا بس ایسے ہی ہے کہ کیا ”بچے کی جان لو گے“ ۔ تحقیقات مکمل کی۔ رپورٹ تیار کرکے عام کردی۔ اس قوم کو ٹرک کی ایک اور بتی کے پیچھے لگانا تھا وہ انھوں نے لگادیا۔ اب قوم جانے اور تیز رفتاری سے چلتے ہوئے ٹرک کی بتی۔

آٹے کا بحران آیا۔ اس پر بھی ایکشن لیا گیا ہے۔ تحقیقات کہاں تک پہنچی ہے اس بارے میں ابھی تک کوئی معلومات نہیں۔ رپورٹ عام کی جائے گی یا نہیں؟ اس بارے میں بھی وزیر اعظم عمران خان ابھی تک خاموش ہے۔ لیکن جو ان کے کرنے کا کام تھا وہ انھوں نے کرکے دکھا دیا۔ تفتیش کا حکم ان کا کام تھا یہ کام وہ کر چکے ہیں۔ رپورٹ مرتب کرنا تفتیش کاروں کی ذمہ داری ہے، وزیر اعظم عمران خان کی نہیں۔ ہاں جب کہیں سے یہ رپورٹ لیک ہو جائے گی تو پھر وزیر اعظم عمران خان بھی اس کو عام کر دیں گے، اس لئے کہ عام شدہ مواد کو مزید عام کرنا کوئی بد نیتی نہیں اور نہ ہی دوستوں کے ساتھ زیادتی ہے۔

اب ان سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ رپورٹ میں موجود مافیا کو حکومت سے نکال دیں۔ جو حکومت میں نہیں لیکن چندہ دے رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کریں تو یاد رکھیں یہ وزیر اعظم عمران خان کا نہیں بلکہ متعلقہ اداروں کا کام ہے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کریں۔ کب روکا ہے وزیر اعظم عمران خان نے اداروں کو بد عنوانوں کے خلاف کارروائی کرنے سے۔ ان سے یہ مطالبہ کہ وہ آٹا مافیا کے خلاف کارروائی کریں بالکل جائز نہیں، اس لئے کہ جو کچھ، جتنا ان کے بس میں تھا وہ انھوں نے کرکے دیکھا دیا ہے۔ اگر وہ اس سے زیادہ کرنے کی ضد کرے گا تو پھر وزارت عظمیٰ جائے گی اور چند کروڑ انسانوں کی خاطر اس اہم منصب کو قربان کرنا ہرگز دانشمندی نہیں۔

بجلی مافیا کے خلاف بھی وزیر اعظم عمران خان نے تحقیقات مکمل کردی ہے۔ اب اس مافیا کے خلاف کارروائی کرنے میں مشکل یہ پیش آ رہی ہے کہ ایک دوست ملک کے سرمایہ کار بھی اس میں ملوث ہے۔ اگر ان کے خلاف کارروائی کریں گے تو وہ دوست ملک ناراض ہو جائے گا۔ جب وہ دوست ملک کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تو اپنے کابینہ کے دو معزز ارکان کو کیوں ناراض کر دیں اور ویسے بھی ماضی میں جب کبھی کسی معاملے کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو کمیٹی بنا کر اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا ہے۔

یہ ایک ریاستی اور حکومتی روایت ہے اس سے انحراف وزارت عظمیٰ کے لئے زہر قاتل ہے۔ ہاں جو متعلقہ ادارے ہیں وہ بجلی مافیا کے خلاف کارروائی کریں۔ کب روکا ہے وزیر اعظم عمران خان نے ان کو؟ انھوں نے تو اپنی ذمہ داری خوش اسلوبی کے ساتھ نبھائی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی بنا دی۔ تفتیش مکمل ہوچکی ہے۔ اب ادارے جانے اور ان کا کام۔ اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ وزیر اعظم ان لوگوں کو کابینہ سے الگ کردیں گے جو بجلی مافیا میں شامل ہے تو ممکن نہیں، اس لئے کہ کابینہ سے ایسے لوگوں کا اخراج وزارت عظمیٰ سے فراغت کا سبب بن سکتا ہے۔ بائیس سالہ جدوجہد کے بعد ہاتھ آئی اس عیاشی کو قوم کے لئے قربان کرنا ہرگز درست نہیں۔ اس قوم کا کیا بھروسا دوبارہ ووٹ دیں بھی یا نہیں۔ تاریخ یہی ہے کہ جو قابل بھروسا نہیں ان کے لئے ایسے بڑے اور اہم مناصب کو قربان نہیں کیا کرتے۔

اس مہینے کے شروع سے وزیر اعظم عمران خان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا۔ ان کے اختیار میں یہی تھا جو انھوں نے کر دیا۔ اب پیٹرول پمپ مالکان اگر پیٹرول فروخت کرنے سے انکاری ہے تو اس میں وزیر اعظم عمران خان کا کیا قصور؟ متعلقہ ادارے اپنا فرض نبھائیں۔ پیٹرول پمپ مالکان کے خلاف کارروائی کریں۔ لیکن پھر بھی قوم کی ہفتہ بھر کی ذلت اور خواری کو دیکھتے ہوئے انھوں نے ایکشن لے لیا ہے۔ اس سے زیادہ اگر وہ کرتے ہیں تو پیٹرول مافیا ان کے خلاف ہو جائے گی جو وزارت عظمیٰ کے منصب کے لئے ہرگز نیک شگون نہیں۔

اب جو چیز وزارت عظمیٰ کے خاتمے کا سبب بننے والی ہو وزیراعظم عمران خان اس سے پنگا کیوں لیں؟ بی آر ٹی، مالم جبہ اراضی اور ہیلی کاپٹر مقدمہ کی بھی ان کو طعنے دیے جا رہے ہیں۔ ان مقدمات سے وزیر اعظم عمران خان کا کیا لینا دینا؟ نیب جانے اور ان کا کام۔ ویسے بھی وزیر اعظم عمران خان نے ہمیشہ سیاسی مخالفین کے احتساب کی بات کی ہے تو پھر ان سے دوستوں کے احتساب کا مطالبہ کیوں؟

جو لوگ مایوسی پھیلا رہے ہیں ان کے لئے عرض ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان سے زیادہ کی توقع نہ رکھے۔ جو کچھ اور جتنا ان کے بس میں ہے وہ سب کچھ وہ کر رہے ہیں۔ لیکن جو اقدام وزارت عظمیٰ کے لئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے اس اقدام کی ان سے ہر گز توقع نہ رکھی جائے اس لئے کہ یہ قوم قابل بھروسا نہیں کیا پتہ اگلی واری پھر چانس ہی نہ دیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments