پٹرول کے ذخائر ختم، زندگی ختم


خبروں کے مطابق وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا نوٹس بے اثر ثابت ہوا۔ ملک بھر میں 10 ویں روز بھی حکومت عوام کو سستے پیٹرول کی فراہمی میں ناکام رہی۔ سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور آ زاد کشمیر میں بیشتر پیٹرول پمپ مکمل طور پر بند ہیں۔ بڑی تعداد میں بند پیٹرول پمپ بدھ کو بھی نہ کھلے جس کے باعث عوام پریشان اور مشتعل دکھائی دیے۔ سرکاری انتظام میں چلنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنی کے پمپ پرپیٹرول دستیاب ہے تاہم وہاں لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں، اور طویل انتظار کے بعد بھی محدود مقدار میں پیٹرول دیا جا رہا ہے۔

یہ تو ہوئی ایک خبر، لیکن نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو اس وقت پوری دنیا کی زندگی اور ہر قسم کی ترقی و خوشحالی کا انحصار پٹرول پر ہی ہے۔ پٹرول سے مراد صرف وہ پٹرول نہیں جس کو عرف عام میں پٹرول کہا اور سمجھا جاتا ہے بلکہ پٹرول سے مراد زمین سے نکلنے والا وہ کروڈ آئل (خام تیل) ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں زندگی بھاگتی دوڑتی اور اوپر کی جانب سفر کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس بات کا اندازہ پاکستان میں پٹرول کی جزوی کمی سے کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں جہاں جہاں یہ کمی اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے وہاں ہر قسم کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور اگر یہی صورت حال پورے پاکستان میں اور پھر اچانک پوری دنیا میں برپا ہو جائے تو چشم تصور میں ان مناظر کو سامنے لائیں جب پورے کرہ ارض کے انسان ایڑیاں رگڑ رگڑ کے زندگیوں کی بھیک مانگ رہے ہوں گے اور اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ہوگا جو انھیں اس مصیبت سے نجات دلا سکے۔

یہ بات بظاہر تو بہت مافوق العقل سی لگتی ہے لیکن ذرا سوچیں کہ اگر اللہ کے حکم سے زمین اچانک تمام خام تیل چوس لے اور دنیا کے سارے پیداواری کنویں اچانک ”سیال سونا“ اگلنا بند کر دیں تو کیا ہوگا؟ دنیا کے چند بہت بڑے بڑے ملک شاید چند ہفتے یا چند ماہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہو جائیں ورنہ پاکستان سمیت کوئی ایک ملک بھی اپنے محفوظ ذخائر سے تین سے چار ہفتے اپنے آپ کو زندہ رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ دنیا بھر میں ہر قسم کی آمد و رفت منجمد ہو کر رہ جائے گی۔ ہر قسم کی ترسیل رک جائے گی۔ کھانے اور زندگی بر قرار رکھنے کی اشیا ختم ہو جائیں گی۔ ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے کے پانی کی پمپنگ بند ہو جائے گی۔ بجلی کی فراہمی معطل ہو جائے گی اور گاؤں، شہر، قصبے تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔

بے شک ایسی صورت میں انسان توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرے گا لیکن اس وقت، پانی اور غذا کی قلت 90 فیصد سے زیادہ انسانوں کو نگل چکی ہو گی۔ پانی بجلی اور گیس کی عدم فراہمی شہری آبادیوں کو کھا چکی ہوگی اور لوگ گاؤں دیہاتوں کی جانب بھاگ رہے ہوں گے ۔ اس صورت حال میں دیہاتی زندگی اپنے تحفظ کے لئے کمر بستہ ہو چکی ہو گی اور آخر میں وہی لوگ زندہ بچ جائیں گے جو یا تو دیہات پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے یا مقامی آبادی اپنا دفاع کامیابی کے ساتھ کر چکی ہو گی۔ یوں زندگی کا آغاز دوبارہ سے دیہات سے ہوگا جہاں بچ جانے والے مویشیوں سے ہل جوت کر اور کنؤں سے پانی نکال نکال کر زمین کی آبیاری کی جا رہی ہوگی۔

پاکستان میں چند شہر صرف پٹرول اور ڈیزل کی کمی کا شکار ہوگئے ہیں تو ایک ہاہا کار مچی ہوئی ہے اگر پورا پاکستان (اللہ نہ کرے ) اس بد انتظامی کا شکار ہوگیا تو کیا پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہر اور ان میں ہستی مسکراتی زندگی ویرانیوں، سسکیوں اور آہوں میں تبدیل ہوکر نہیں رہ جائے گی؟

پٹرول کی قیمتیں پاکستان میں کوئی پہلی مرتبہ کم نہیں ہوئی ہیں۔ پرویز مشرف، ن لیگ کے آخری دور اور خود عمران خان کے موجودہ دور میں کئی مرتبہ پٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ موجودہ دور میں بھی پٹرول کی قیمت 120 روپے تک پہنچی ہوئی تھی جو کم ہوتے ہوتے 82 روپے تک آ گئی تھی۔ تقریباً 40 روپے کم ہوجانے کے بعد بھی پورے ملک میں پٹرول کی فراہمی کا سلسلہ معمول کے مطابق ہی جاری تھا۔ آخری مرتبہ قیمت میں صرف 7 روپے مزید کم ہو جانے سے ایسا کیا ہو گیا کہ پورے ملک میں افراتفری مچ کر رہ گئی۔

اس بات سے یہ اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ اس کمی اور عدم فراہمی کے پس پردہ کچھ اور ہی کہانی ہے۔ اس میں اگر کسی سازش کی کوئی بو بھی ہے تو حکومت کی نا اہلی اور حالات پر بھرپور نظر نہ رکھنے جیسی کوتاہی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا حکومت اس معاملے پر توجہ دے۔ اگر سازش ہے تو اسے بے نقاب کرے اور اگر نا اہلی ہے تو اس جرم عظیم کے ذمہ دار خواہ افراد ہوں، محکمے ہوں یا ادارے، ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے کیونکہ اس قسم کی ہر کوتاہی قومی جرم ہے اور ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ امید ہے حکومت فوری ایکشن لے گی اور مجرموں کو اپنے انجام تک پہنچائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments