پولیس اتنی بھی بری نہیں


کہتے ہیں ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے۔ مگر اس تصویر میں تو ایک پوری تاریخ بند ہے۔ وہ تاریخ جس کا آغاز 73 سال پہلے آزادی کے ساتھ، معاف کیجئے گا ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان میں کاروبار کی اجازت دینے سے ہوا۔

چلیے تھوڑا تاریخ میں چلتے ہیں۔ مغل ہندوستان میں ”زمیندار“ اپنی زمین کی حدود میں کسی بھی گڑبڑ کرنے والے کا ذمہ دار ہوتا۔ گاؤں کی سطح پر ”مکھیا“ جرائم کی بیج کنی کرتا۔ قصبوں اور شہروں میں ”کوتوالی نظام“ تھا۔ کوتوال شہر ایک بڑا منصب تھا جس کی ذمہ داریوں میں مجرموں کو پکڑنے سے لے کر، شہروں کا میونسپلٹی نظام چلانا اور ریونیو اکٹھا کرنا بھی ہوتا۔ اس سے آپ کوتوال کی طاقت کا اندازہ لگائے۔ گاؤں اور قصبوں میں ”گھڑ سوار“ پٹرولنگ کرتے جن کی بہت دہشت ہوتی تھی۔ کرپشن کا لفظ ابھی ایجاد نہیں ہوا تھا اس لئے امن و امان کافی حد تک مثالی تھا۔ 90 % جرائم پر تو کوتوال شہر ہی قابو پا لیتا۔ ایک تو آبادی بہت کم تھی، دوسرے منظم جرائم کی شرح نا ہونے کے برابر تھی۔ اگر کبھی کوئی بڑا جرم ہو جاتا تو ملٹری کی مدد لی جاتی یوں یہ نظام بخوبی چل رہا تھا۔

انگریزوں نے آکر مجسٹریٹی نظام شروع کیا جس میں ایک ”مجسٹریٹ“ ایک ”داروغہ“ اور اس کے ماتحت سٹاف کے ذریعے نظام کو چلایا گیا۔ ہندوستان کے بہت سے علاقوں نے اس نظام کی مخالفت کی جیسے بنگال، مدراس اور بمبئی وغیرہ اور وہاں ترامیم کر کے لوکل ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے نظام وضع کیے گئے۔ سندھ کا پولیس نظام سب سے بہترین قرار پایا جو کہ سر چارلس نیپئر نے آئرش کانسٹیبلری سے متاثر ہو کر بنایا اور کئی شہروں میں کاپی کیا گیا مگر پنجاب پولیس میں ایک نیا تجربہ کیا گیا۔

پولیس کے 2 ونگ بنائے گئے ایک ملٹری ونگ دوسرا ڈیٹیکٹو ونگ۔ یہ نظام 1861 میں ایک کمیشن کی سفارشات پر تبدیل ہوا جس کو بمبئی کے علاوہ پورے ہندوستان میں نافذ کر دیا گیا۔ اس نظام میں پولیس کا انتظامی سربراہ آئی جی بنا اور اس کے نیچے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تمام اختیارات سنبھالتا۔ یہ نظام آج بھی ترامیم در ترامیم کے بعد تقریباً اسی طرح رائج ہے۔

پولیس کا موجودہ نظام مملکت کے بننے کے بعد تقریباً تین سے چار دہائیوں تک بہت اچھا چلتا رہا مگر بعد میں جہاں باقی محکمے زبوں حالی کا شکار رہے یہ محکمہ بھی نا بچ سکا۔ مارشل لائی ادوار میں پولیس سے سیاستدانوں کو ڈرانے دھمکانے اور پکڑ کر جیلوں میں ڈالنے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آنے والے ہر دور میں بلا کم و کاست ویسے ہی جاری رہا۔ پولیس رولز میں ترمیم کر کے اسے اتنے اختیارات دے دیے گئے جن کا ارتکاز کسی بھی محکمہ کو برباد کرنے کے لئے کافی تھا۔

اختیار اور احتساب دو لازم و ملزوم چیزیں ہیں۔ جب صرف اختیار ہو اور احتساب نا ہو تو وہاں سے اختیارات کا نا جائز استعمال شروع ہوتا ہے۔ انگریزی کا ایک جملہ ہے۔
Absolute powers corrupt absolutely۔
جمہوری ادوار میں تھانے بکنے لگے، ٹرانسفر اور پوسٹنگ بلیک میلنگ کا ہتھیار بن گئیں۔ ممبران کھلے عام کہتے پائے جاتے کہ الیکشن جیتنے کے بعد اگر بندہ اپنی مرضی کا تھانیدار بھی نا لگوا سکے تو لعنت ہے۔ دیہات میں عملاً چوہدری، ملک، سائیں، نواب اور خان کی تھانیداری ہے اور سرکار کا تعینات کیا تھانیدار ان کی مرضی کے بغیر کچی رپٹ بھی درج نہیں کر سکتا۔ پولیس اور پٹوار کی مدد سے ارباب اختیار نے وطن عزیز کے ساتھ وہ کچھ کیا جس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ مگر کیا اس سب کا ذمہ دار پولیس کو ٹھہرانا جائز ہے؟ میرا جواب نفی میں ہے۔

ایک عام پولیس والے کی حالت دیکھئے جو آپ کو زیر نظر تصویر میں دکھائی دے رہی ہے۔ یہ تصویر نہیں بلکہ ایک نوحہ ہے۔ ایک پولیس والا مجرم کو زنجیر سے باندھے اس کی ہی موٹر سائیکل پر اسے شاید تھانے لے کر جا رہا ہے۔ وطن عزیز کے ہر محکمے میں چھٹی کا ایک مقررہ وقت ہے سوائے پولیس کے۔ ان کی ڈیوٹی 24 گھنٹے ہوتی ہے۔ بندوقیں ہیں مگر شاید انگریز کے زمانے کی جس کے متعلق خود پولیس والے کو نہیں پتا کے فائر کرے گی کے نہیں۔

پولیس وین اکثر صاحب کے گھریلو استعمال میں ہوتی ہے یا خراب۔ آپ نے اکثر پولیس والوں کو ہاتھ دے کر موٹر سائیکل کو روک کر لفٹ مانگتے دیکھا ہو گا کیونکہ انھیں ڈیوٹی کی جگہ کا تو بتا دیا جاتا ہے مگر سواری مہیا نہیں کی جاتی۔ وی آئی پی موومنٹ کے لئے سڑک بند تو بڑے صاحب کے لئے ہوتی ہے مگر گالی بیچارہ وارڈن کھاتا ہے جس کا اس سے کچھ لینا دینا ہی نہیں۔ اکثر سڑک پر لڑائیاں ہو جاتی ہیں جس میں ہجوم سے مار کھانے والے بھی پولیس والے ہی ہوتے ہیں۔

سونے پے سہاگہ اگر بلاک ٹریفک میں کسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی بیوی نکل آئے تو بھی گالیاں بے چارے کانسٹیبل کے حصے میں آتی ہیں اور پیٹی اتروانے کی دھمکیاں الگ۔ دنیا کے ہر پسماندہ ملک میں بھی پولیس کی مسلسل ٹریننگ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بغیر فائر کیے ہجوم کو منتشر اور قابو کرنا سکھایا جاتا ہے اور ساتھ میں آنسو گیس سے لے کر بلٹ پروف جیکٹس، ربڑ کی گولیاں، ہیلمٹ، آہنی شیلڈ اور ڈنڈے وغیرہ سے مسلح کیا جاتا ہے۔ نفسیات دانوں سے باقاعدہ لکچرز دلوائے جاتے ہیں تاکہ وہ ذہنی دباؤ کے زیر اثر کوئی ماورائے قانون کام نا کر بیٹھیں مگر یہاں زیادہ سے زیادہ کسی بڑے مولانا صاحب کو بلا کر ان کا ایمان تازہ کرا دیا جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

پولیس کی کبھی ایسی تربیت ہی نہیں دی گئی کہ ہجوم سے کیسے نمٹنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہجوم کہیں پر حملہ کرتا ہے تو پولیس ایک فرلانگ دور رہنا ہی پسند کرتی ہے کہ جب معاملہ ٹل جائے گا تو انٹری مار لیں گے۔ سیاسی بھرتیوں نے جہاں نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں لا اینڈ آرڈر کی زمام کار دے دی ہے وہاں چند روپوں کی نوکری کی خاطر یہ بے چارے اپنے افسران سے لے کر عوام تک سب کی گالیاں سنتے ہیں اور پھر بھی روزانہ وہیں سے اسٹارٹ کرتے ہیں جہاں سے کل چھوڑا تھا۔

نتیجہ وہی نکلتا ہے کہ فرسٹریشن میں یہ عوام پر ظلم کرتے ہیں اور عوام ان پر۔ کبھی آپ کے سرکل میں کوئی پولیس والا ہو تو اس کے گھریلو حالات دیکھیں۔ بچوں سے اس کا رابطہ نا ہونے کے برابر ہے اور بیوی سے روز طعنے سنتا ہے کہ فلاں پولیس والے نے تو اپنی بیوی کو سونے کا سیٹ لے کر دیا ہے تم تو ایک پھولوں کا ہار لانے کے اہل نہیں۔ ان تمام باتوں کا ہرگز مطلب نہیں کہ نظام کی ان سب خرابیوں کے بعد پولیس کے پاس عوام کو لوٹنے اور مارنے کا لائسنس ہے۔ چونکہ ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اس لئے بدلے میں وہ زیادتی کرنے میں حق بجانب ہیں۔ بالکل نہیں۔

خدا لگتی کہئے۔ دہشتگردی کا حملہ ہو تو پولیس فرنٹ لائن پر، مذہبی فساد ہوں تو پولیس، ڈاکوؤں اور اشتہاروں سے مقابلہ ہو تو وہ آگے، وی آئی پی ڈیوٹی پر گارڈ کھڑا ہونا ہے تو پولیس، وکلا کو روکنا ہو تو پولیس، ڈاکٹرز کو روکنا ہو تو پولیس۔ نا جائز تجاوزات سے لے کر پولیو ورکرز کے ساتھ پولیس والے ہی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ مرتے بھی ہیں، مارتے بھی ہیں، معطل پھر بحال بھی ہوتے ہیں۔ ڈینگی ہو یا کرونا، پولیس والے ہی دکانیں بند کراتے ہیں، اور تاجروں کی ہڑتال کے آگے دیوار بھی وہی ہیں۔

دہشت گردی سے کرونا تک ہزاروں پولیس والے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں مگر عوام سے ان کا سلوک عوام کے دلوں میں ان کے لئے ہمدردی کے وہ جذبات نہیں جگا سکا جس کے وہ مستحق ہیں۔ ہم ان سے نفرت تو بہت کرتے ہیں مگر کبھی ان کی زندگیوں پر نظر ڈالیں آپ کو ان سے زیادہ نہیں تو تھوڑی ہمدردی تو ضرور ہونے لگے گی۔ اس تصویر میں بھی شاید مجرم پولیس والے کی ہمدردی میں اپنی ہی موٹر سائیکل پر خود کو تھانے لے کر جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments