ایک بوڑھے کی دو کہانیاں


پہلی کہانی

بانوے سال کا بوڑھا شخص دو سال کے بعد اسی دکان پر واپس گیا، جہاں سے نوے سال کی عمر میں اس نے کفن خریدا تھا۔

دکان پر پہلے ہی کچھ گاہک موجود تھے، اس کے باوجود دکاندار نے مسکرا کر نئے گاہک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، “آگے آجائیں جناب، کیا چاہیے؟”

بوڑھا پیچھے ہی کھڑا رہا اور کھانستے ہوئے کہا، “آپ گاہکوں سے فارغ ہو لیں۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔”

دکاندار دوسرے گاہکوں کے ساتھ مصروف ہو گیا۔ بوڑھا اپنے ہاتھ میں پکڑے چھوٹے سے تھیلے کو سنبھالتے ہوئے، لاٹھی کے سہارے قریب پڑے اسٹول پر بیٹھ گیا۔

دکاندار آخری گاہک کو سامان دے کر فارغ ہوا تو اس نے بوڑھے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا، “حکم کریں جناب، آپ کو کیا چاہیے؟”

بوڑھا پہلے کھانسا اور پھر لاٹھی کے سہارے اٹھ کر کائونٹر کے پاس پہنچ کر کہا، “مجھے کچھ بیچنا ہے۔”

دکاندار نے ناگواری جواب دیا، “ہم ہول سیل مارکیٹ سے مال خریدتے ہیں، راہگیروں سے کچھ نہیں خریدتے۔”

بوڑھے نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے، تھیلے میں پڑا سفید رنگ کا کپڑا نکال کر کائونٹر پر رکھا اور کہا، “دو سال پہلے میں نے یہ کفن آپ ہی کی دکان سے خریدا تھا۔”

دکاندار نے حیرت سے پوچھا، “آپ نے یہ کفن کس کے لئے خریدا تھا؟”

بوڑھے نے لمبی سانس لے کر کہا، “اپنے لئے خریدا تھا۔”

دکاندار نے طنز سے مسکرا کر کہا، “آپ نے مرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے کیا؟”

بوڑھے نے پہلے سے زیادہ لمبی سانس لے کر کہا، “فی الحال تو مہنگائی نے مار ڈالا ہے۔۔۔!”

دکاندار نے کفن کے کپڑے کو کھول کر اچھی طرح سے دیکھتے ہوئے پوچھا، “استعمال تو نہیں کیا ہے نا؟”

بوڑھے نے گلا کھنکار کر کہا، “استعمال کیا ہوتا تو آج میں آپ کے سامنے کیسے کھڑا ہوتا۔۔۔!”

دکاندار نے کچھ نوٹ نکال کر بوڑھے کے ہاتھ میں تھمادئے۔

بوڑھے نے نوٹ اپنے کانپتے ہاتھ کی مٹھی میں دبائے اور لاٹھی کے سہارے دکان سے اتر گیا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا، دال، چاول اور آٹا خریدنے کے لئے، کفن کی دکان سے کچھ فاصلے پر موجود دوسری دکان کے اندر چلا گیا۔

دوسری کہانی

بانوے سال سے اوپر کا بوڑھا شخص اپنے لئے دوسری مرتبہ کفن خریدنے کے لئے دکان پر پہنچا۔

پہلی مرتبہ خریدا ہوا کفن اس نے بھوکا مرنے سے بچنے کے لیے واپس کر دیا تھا۔

کفن دفن کے سامان کی اس دکان پر پہلے بھی کچھ نہ کچھ گاہک موجود ہوتے تھے لیکن وبا کے دنوں میں اب اس دکان پر کچھ زیادہ گاہک موجود تھے۔

بوڑھے کو اپنی لاٹھی کے سہارے قطار میں کھڑا رہ کر کافی دیر تک اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا۔ جب اس کی باری آئی تو ماسک پہنے ہوئے دکاندار نے پوچھا، “جلدی بتائیے جناب، آپ کو کیا چاہیے؟”

بوڑھا کچھ بولنے سے پہلے تھوڑا کھانسا تو دکاندار چونک کر پیچھے ہٹ گیا۔ بوڑھے کے پیچھے اپنی باری کے انتظار میں کھڑے دوسرے گاہکوں میں، بوڑھے کے کھانستے کی وجہ سے پریشانی اور بےچینی پھیل گئی۔

دکاندار نے دور سے ہی جلدی میں پھر پوچھا، “جلدی بتائیے جناب، آپ کو کیا چاہیے؟”

بوڑھے نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے جیب میں پڑے کچھ نوٹ نکال کر کہا، “دو سال پہلے خریدا ہوا کفن میں نے کچھ ماہ قبل واپس کر دیا تھا۔ اب وہ کفن مجھے دے دیجئے۔”

دکاندار نے بیزاری اور نیم غصے سے کہا، “معلوم نہیں کہ آپ کو مرنا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔!”

بوڑھے نے لمبی سانسیں لیتے ہوئے کہا، “وبا کے ان دنوں میں سرکاری امداد حاصل کرنے کے لئے گیا تو ہجوم میں جاکر پھنس گیا تھا۔ امدادی رقم لے کر ہجوم سے نکلنے کی کوشش کی تو کچلا گیا۔ کچھ نوٹ کچلتے ہوے ہاتھ سے چھوٹ گئے، تھوڑے سے بچ گئے ہیں۔ ادھ موا تو وہیں ہو گیا تھا، اب بخار کے ساتھ سانس بھی گھٹنے لگی ہے۔۔۔”

دکاندار نے غصے سے بوڑھے کی بات کاٹتے ہوئے کہا، “قصہ مت سنائیں جناب، کام کی بات کریں۔ کچھ خریدنا ہے تو جلدی بتائیے۔ آپ کے پیچھے بھی گاہکوں کی لمبی قطار ہے۔”

بوڑھے نے اپنی مٹھی میں پکڑے ہوئے کچھ نوٹ کائونٹر پر رکھتے ہوئے کہا، “کچلے جانے کے بعد سرکاری امداد کی رقم سے باقی یہی پیسے میرے ہاتھ میں بچ گئے تھے۔ یہ آپ رکھ لیجئے اور مجھے میرا کفن دے دیجئے۔۔۔!”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments