اصلی گل محمد بخشا، وچوں گئی اے مک


اب کے بار گرمی کو تاخیر ہوئی۔ ملتان کا روایتی موسم جون کے دوسرے ہفتے یہاں پہنچا۔ چمکیلی دوپہریں، بھاپ کی سی ہوائیں، سلگتی سہ پہریں، بجھ چکی آگ کی بچی کھچی چنگاریوں پر چڑھی راکھ کی سی حدت چھوڑتی شامیں اور نرم گرم ٹکور کرتی فضا والی راتیں۔ یہی تو حسن ہے ہمارے خطے کا اور اس شہر قدیم کا ۔ ان دوپہروں، سہ پہروں، شاموں اور راتوں سے شناسائی بہت پرانی ہے۔ تب سے ہی جب سے ہوش کی آنکھ کھولی۔

یہی شہر قدیم تھا، جس کی پہچان میں گرد، گدا اور گورستان کے ساتھ ساتھ امیر خسرو نے ”گرما“ کا نگینہ مستقل ٹانک دیا اور ایسی ہی جلتی ہوئی دوپہریں۔ گلیوں بازاروں میں ویرانی کا جن پھر جاتا، انسانی زندگی چھتوں اور دیواروں کی آڑ لے کر دبک جاتی۔ مجھے وہ بڑا سا مستطیل کمرہ یاد آتا ہے جو لمبائی کے رخ شرقاً غرباً تھا۔ مشرقی دیوار میں ایک کھڑکی تھی جس میں خوش بو دار خس والا بڑا سا ائر کولر نصب تھا۔ اس کولر کے آگے لکڑی کے دو مضبوط نواری پلنگ پہلو بہ پہلو لیٹے تھے۔

ان سے آگے ایک چارپائی اور پھر وہ بڑے بڑے موٹے پایوں والا جہازی پلنگ جو ہماری اماں کے جہیز کا تھا۔ یہ چاروں جنوباً شمالاً بچھے تھے گویا جنوب کی جانب بالیں اور شمال کو پائنتی۔ شمالی دیوار کے ساتھ لگی دو چارپائیاں اوپر تلے شرقاً غرباً جن کی پائنتی ظاہر ہے مشرق کی جانب ہوا کرتی تھی۔ ایک لمبی کھڑکی جنوبی دیوار میں بھی تھی اور اس سے آگے داخلی دروازہ جو برآمدے میں کھلتا۔ گرم علاقوں میں برآمدہ بھی کیا نعمت ہوا کرتا تھا۔ کمرے سے نکلتے ہی آپ براہ راست سورج کو ماتھا دکھانے سے محفوظ رہتے۔ دوسرا گرما کی راتوں میں آنگن میں سوئے ہوؤں کو جب بارش آن لیتی تو چارپائیاں کھینچ کر برآمدے میں کرلی جاتیں۔ صحن میں برستی بارش کی ٹھنڈک ستونوں کے مابین دروں سے برآمدے میں پہنچتی اور کیا لطف کی نیند آتی۔

خیر! میں اس مستطیل کمرے کی بات کر رہا تھا جس کی کھڑکیوں اور دروازوں پر بھاری پردے تھے جو دوپہر کو برابر کر دیے جاتے۔ کمرے میں اندھیرا ہوجاتا اور کولر ٹھنڈی ہوا کے ساتھ اصلی خس کی خوشبو کمرے میں بھر دیتا۔ خشک لکڑیوں کی مانند دھڑ دھڑ جلتی شہر ملتان کی دوپہر میں یہ کمرہ راحت جاں ٹھنڈی تاریکی کا حامل ہوتا۔ آپی تو اپنے گھر کی ہو چکی تھیں، ہم تینوں بھائی، چھوٹی بہن، امی اور ابا جی اسی کمرے میں دوپہر گزارا کرتے۔

امی ڈانٹ ڈپٹ کے لٹا دیتیں مگر پتہ نہیں کیسے دن تھے وہ، مجھے نیند نہ آتی۔ دھریک کے وہ دو درخت جو گھر کے جنوبی بڑے آنگن میں گلی والی دیوار کے ساتھ ساتھ کھڑے تھے، مجھے بلاتے رہتے۔ میں اماں کے سو جانے کا منتظر رہتا اور پھر چپ کر کے نکل آتا۔ پڑوس والے غضنفر کے ساتھ جو مجھ سے کوئی دو برس چھوٹا تھا، ساری دوپہر ان دھریکوں کے نیچے گزر جاتی۔ کبھی میں گھر سے سائیکل نکال لانے میں کام یاب ہوجاتا تو ہم دونوں سائیکل پر کالونی کی ویران سڑکوں پر اڑے اڑے پھرتے۔ غضنفر نابینا تھا۔ قاری اقبال صاحب ہمیں قرآن پڑھانے آتے تو وہ ان سے حفظ کیا کرتا۔ دس گیارہ سیپاروں سے آگے نہ بڑھ سکا۔

گاتا کیا اچھا تھا۔ عطاءاللہ کے بے شمار گیت اس کو یاد تھے۔ ”مینوں کر نہیں ساڑ کے کولا“ تو وہ ڈوڑھے کے ساتھ کیا ہی خوب گاتا تھا۔ ”کوئی حکم ہووے ارشاد ہووے سرکار اتنے بے تاب کیوں ہن“ والا ڈوڑھا۔ تب کون سوچ سکتا تھا کہ مستقبل کے پردوں میں ایک وقت ایسا بھی چھپا ہے جب اس گیت اور ڈوڑھے کے خالق افضل عاجز کے دوستوں کی فہرست میں میرا نام بھی شامل ہوگا۔ جن دوپہروں کا ذکر میں کرتا ہوں تب ہم ”چھلا میڈا جی ڈھولا“ بھی گایا کرتے تھے اور ان بولیوں پر وہ وہ گرہ بندیاں ہوتیں کہ جو یہاں ضبط تحریر میں نہیں لائی جا سکتیں۔ بے شمار سرگرمیاں تھیں ان دوپہروں کی، اب کس کس کا ذکر کروں اور کس کو چھوڑوں۔

یہ سطریں لکھتا ہوں تو جون کا دسواں روز وقت کی لحد میں اتر جانے کو ہے۔ دوپہر کو دفتر سے آیا تو ایسی ہی جلتی بلتی دوپہر راہ میں ملی۔ کھانے کے بعد ہم سب سونے کے کمرے میں لیٹ گئے۔ کھڑکی کے پردے برابر تھے اور کمرے میں خنک تاریکی تھی۔ بیٹیاں اور ان کی اماں کچھ دیر اپنے موبائلوں میں مصروف رہیں پھر سو گئیں۔ میں اپنے بیڈ پر لیٹا تھا تبھی یک بہ یک میرے اندر وہ ساڑھے تین، چار دہائیاں پہلے والا لڑکا جاگ اٹھا۔ کمرے کی ٹھنڈی تاریکی میں مجھے لگا میں کسی سینما گھر میں ہوں اور پھر سامنے کی دیوار پر وہ فلم چلنے لگی جس کے سبھی کردار بکھر چکے۔ دل میں ناسٹیلجیا بھرنے لگا تو خیال آیا گو سب کردار کھو گئے مگر اس کمرے اور گھر کی دیوار کے باہر دوپہر وہی ہے۔ میں نے ماسک چڑھایا اور چپکے سے باہر نکل آیا۔ چپکے سے نکلنے کی احتیاط نہ بھی کرتا تو کیا فرق پڑتا کہ اب یہاں کون روکنے والا بیٹھا تھا مگر میں نے پورا اہتمام کیا کہ کسی کو خبر نہ ہو۔

واضح ہو کہ بیس برس ایک اور محلے میں گزارنے کے بعد ایک بار پھر اسی بستی کا مکین ہوں جہاں میرا لڑکپن اور بچپن گزرا۔ وہی سلگتے راستے تھے اور در و دیوار، وہی گلیوں میں ٹہلتی ویرانی اور وہی گرم سوئیوں ایسی چبھتی نوکیلی دھوپ۔ میں اپنے ناسٹیلجیا کے ساتھ چلتا رہا مگر پندرہ منٹ بھی تاب نہ لا سکا۔ سر چکرانے لگا اور یوں لگتا کی اب تیورا کے گرا کہ تب گرا۔ وہ چھادا تھا جو اسی گرمی میں سائیکل دوڑائے پھرتا تھا، یہ سجاد جہانیہ ہے جو اب اپنی اس محبی دوپہر کے ساتھ پندرہ منٹ نہ گزار سکا اور اس کا ناسٹیلجیا دھواں بن کے ناک کے راستے نکل گیا۔

کہتے ہیں کہ اوزون کی تہ آلودگی نے توڑ پھوڑ ڈالی ہے اور سورج کی شعاعوں کے فوٹان جو اوزون میں الجھ کے رک جایا کرتے تھے، اب مارے ڈالتے ہیں۔ اسی بنا پر اب درجہ حرارت بھی دو بتلائے جاتے ہیں۔ ایک جو اصل میں ہوتا ہے اور دوسرا ”فیل لائک“ چناں چہ اب دھوپ کی شدت برداشت سے باہر ہوتی ہے۔

بہرحال ناسٹیلجیا پر چار حرف بھیج کر ہانپتا کانپتا میں اسی اندھیرے خنک کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ ہوش ٹھکانے آئے تو سوچا کہ اوزون وغیرہ کا رونا دھونا یونہی باتیں ہیں۔ اصل وجہ اس شعر کا دوسرا مصرع بتاتا ہے۔

کوئی آکھے پیڑ لکے دی، کوئی آکھے چک
اصلی گل محمد بخشا، وچوں گئی اے مک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments