آپریشن ٹیبل پہ پڑی لاش


ڈاکٹر سلمان کو شاید میں نے ایک آدھ بار دیکھا ہو۔ اس کی روشن آنکھوں میں زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ چمکتی تھی۔ اس کی تصویر دیکھتا ہوں تو دل میں ایک تیر سا لگتا ہے۔ دکھ خودبخود روح کی گہرائی تک کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ یہ سلمان کی موت نہیں، اس ایک موت نے ایک نظام کی مردہ لاش کی طرف اشارہ کیا۔ ایک نظام جس کا بے گورو کفن لاشہ بیچ چوراہے پڑا تعفن چھوڑ رہا ہے۔ اس ایک واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم ایک قاتل قوم ہیں۔

ایک مفلوج نظام کے گھسے ہوئے کل پرزے۔ اوپر سے نیچے تک سب کام چوری میں لگے ہیں۔ کام چوری سے زیادہ کوئی جواب دہی کا طریقہ کار نہیں۔ پروفیسر سے لے کر ہاؤس افسر تک سب من مانی کرتے ہیں۔ اصل میں تربیت کا ایک پورا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ تربیت جو ماں کے پیٹ سے شروع ہوتی ہے۔ جب باپ انگلی پکڑ کے چلنا سکھاتا ہے تو کچھ جینے کے آداب اور ڈھنگ سکھائے جاتے ہیں۔ احترام آدمیت، اصول، نظم و ضوابط اور قاعدے قانون کی پاسداری یہ سب سکولوں میں پڑھایا اور سکھایا جاتا تھا۔

آج بھی مجھے اگر کسی استاد کا فون آ جائے تو میں فون کال بھی کھڑے ہو کر سنتا ہوں۔ وقت نے زمانے نے اخلاقی قدروں کو موت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ نئی نسل آج جو کچھ اپنے بڑوں سے سیکھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ بے پناہ پیسہ کمانے کے لیے دوڑ کیسے لگانی ہے۔ کتابیں اور سبق طوطوں کی طرح اس لیے رٹائے جاتے ہیں کہ ڈاکٹر، انجینئر اور بیوروکریٹ بن جاؤ کسی نہ کسی طریقے سے پیسہ چھاپنے والی مشین بن جا نا چاہیے۔ یہ کوئی نہیں سکھا رہا کہ کیسا ڈاکٹر، انجینئر یا بیوروکریٹ بننا ہے۔

ٹھیکیدار تعمیرات میں گڑبڑ کرتا ہے انجینیئر اور بیوروکریٹ سے مل کے۔ پولیس والے رشوت لے کے قاتل تک کو چھوڑ دیتے ہیں۔ کہیں خود احتسابی یا ریاست کی طرف سے احتساب کا نظام نہیں۔ سب من مانی کرتے ہیں اور کسی کو کسی کا ڈر نہیں۔ کوئی نکیل ڈالنے والا نہیں۔ ڈاکٹر سلمان کی موت سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ساہیوال کے سانحے کا تسلسل ہے۔ جس طرح ان سانحوں کے ذمہ دار بچ نکلے وقت کی دھول میں یہ واقعہ بھی گم ہو جائے گا۔ وہ زندہ آنکھیں مر گئیں۔

وہ آنکھوں کی روشنی جو انگنت خوابوں کی حرارت لیے ہوئے تھی اس روشنی کو میں نے آپ نے اس نظام نے بجھا دیا۔ ہو گا کیا کچھ بھی نہیں کمیٹی بنے گی انکوائری ہوگی۔ کاغذوں کے پیٹ بھر دیے جائیں گے۔ ایک دوسرے پہ الزام لگایا جائے گا۔ اصل میں ماضی میں بھی بار بار اشارہ کر چکا ہوں کہ صحت کے نظام اور صحت کی تعلیم کے نظام کو کاروبار نہیں بننا چاہیے تھا۔ اب جو لاکھوں روپے دے کر ڈاکٹر بن جاتے ہیں ان کے پاس لمبی لمبی سفارشیں بھی ہوتی ہیں۔

وہ نظم و ضبط کو بھی توڑتے ہیں۔ ایک بندہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کرے گا تو سب کو راستہ مل جائے گا۔ تو اس شعبے میں حد سے بڑھی ہوئی ہوس زر نے اس کو تباہ کیا ہے۔ جو پیسے والے ہیں وہ سسٹم کو روندتے ہیں تو ہم جیسے باقی بھی نظام کی اس خرابی سے ناجائز فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ جو نظم و ضبط کی پابندی کرے، سختی کرے سب اسے پاگل کہتے اور گالیاں دیتے ہیں۔ ہمارے ایک پروفیسر صاحب تھے جو صبح آٹھ بجے ڈیوٹی شروع ہوتی تھی تو سات بجے دفتر میں موجود ہوتے تھے۔

ان کا وارڈ سب سے صاف ستھرا ہوتا تھا۔ ان کے آؤٹ ڈور میں مریض ٹھیک سے دیکھے جاتے تھے ان کے آپریشن وقت پہ ہوتے تھے اور کامیاب بھی ہوتے تھے۔ میڈیکل کالج کے طالب علموں کو بھی وہ بہت توجہ سے پڑھاتے تھے۔ سب لوگ ان کے وارڈ سے دور بھاگتے بڑی مشکل سے بچے کھچے لوگ ان کے وارڈ میں ٹریننگ کے لیے جاتے۔ جو اس وارڈ میں ٹریننگ کے لیے چلا جاتا وہ پھر کندن بن کے نکلتا۔ وہ ایک کامیاب سرجن بننے کے ساتھ ساتھ کامیاب زندگی کی گارنٹی بھی ساتھ لے کر جاتا۔

عمومی تاثر ان کے بارے میں یہ تھا کہ نفسیاتی مریض ہیں، کام کے علاوہ انہیں کوئی کام نہیں۔ پرفیکشنسٹ ہیں۔ دماغ ہلا ہوا ان کا۔ پاگل آدمی ہیں۔ ہسپتال میں عام لوگوں کے عمومی تاثرات یہی تھے ان کے بارے میں۔ تو آج دل بہت دکھا ہوا ہے۔ میں آپ، یہ نظام ہم سب اس کے قاتل ہیں اور آپریشن ٹیبل پہ پڑی اس کی لاش یہی سوال کر رہی ہے ہم سب سے۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments