ھم نے ماسک نہیں پہننا


آج کل ہم جو بھی اخبار پڑھنے کے لئے اٹھائیں تو خبروں کے ساتھ ساتھ اخبار کا اداریہ اور اس کے ساتھ دو، تین کالمز کرونا کے حوالے سے قارئین کو پڑھنے کو ملیں گے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ کرونا نے ہمارے پیارے ملک پاکستان کے ساتھ ساتھ پورے خطۂ زمین کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہیں، ہزاروں لوگ اس وبا کی وجہ سے جان سے گئے، لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔

پوری دنیا اس بیماری سے جان چھڑانے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ جب سے یہ وائرس چین کے شہر ووہان سے ہوتے ہوئے پورے کرہ ارض پر پھیل گیا تو ان ممالک نے ایک دوسرے پر وائرس پھیلنے کے الزامات لگائے۔ چین نے امریکہ پر الزام لگایا کہ یہ انہوں لیبارٹری میں تیار کر کے چین بھیجی ہے تو امریکہ نے چین پر اس کے تیاری اور پھیلانے کا الزام لگایا اور چین نے برطانیہ پر لیکن وہ لوگ مانتے ہیں اس چیز کو کہ کرونا نامی یہ بیماری ہے چاہے وہ لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہو یا قدرت کی طرف سے عذاب لیکن وہ لوگ اس چیز کو تسلیم کرتے آرہے ہیں۔

لیکن دوسری طرف ہماری قوم اس چیز کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہے اور اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ اگر آپ ماسک لگا کر کسی کام کے سلسلے میں باہر جائیں تو زیادہ تر یہ الفاظ اپ کو سننے کو ملیں گے ”واہ بھائی آپ کا ایمان اتنا کمزور ہے کیا آپ کو اللہ پر بھروسا نہیں ہے موت سے ڈرتے ہو؟“ اب ان کو کون سمجھائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور ساتھ میں عقل و دماغ بھی دیا ہے تاکہ ہم صحیح اور غلط کی پہچان کرسکے۔

اب اگر بندہ بیمار ہو جائے تو وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تاکہ اس کا علاج ہو سکے یا ہم اکثر زلزلے کے وقت کمرے سے بھاگتے ہے تاکہ اللہ کے قہر و غضب سے محفوظ ہو سکے لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہے جن کو کرونا ایک مذاق لگ رہا، حکومت کا کوئی چال لگ رہا ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ حکومت وقت کو اس کے اوپر پیسے مل رہا ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ بائیولوجیکل وار ہے۔ ارے اللہ کے بندوں جو بھی ہے جتنے بھی کانسپیریسی تھیوریز ہے وہ سب بعد میں لیکن یہ چیز اصل میں ہیں۔

آج کل پاکستان میں روزانہ اوسطاً 5000 نئے کرونا کے کیسز سامنے آ رہے ہیں جس سے ملک میں تقریباً مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئے اور اب تک تقریباً 2200 لوگ لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ پچھلے دنوں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کو ایک خط لکھا اور اس خط میں ڈبلیو ایچ او نے پاکستان میں سخت لاکھ ڈاؤن لگانے کی تلقین کی ہے اور آنے والے دنوں میں سنگین صورتحال سے بھی خبردار کیا ہے۔ اس کے باوجود اکثر لوگ کرونا وائرس کی موجود کو ماننے کو تیار نہیں ہے ہر کوئی نے اپنے طریقے سے کوئی نہ کوئی مفروضے بنائے رکھے ہے۔

حکومت نے تو لاک ڈاؤن ختم کر دیا لیکن ایس او پیز پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن مجال ہے کہ ہمارے لوگ اس پر عمل پیرا ہو سکے۔ اگر کوئی ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ آ گئے بڑھائے اور آپ انکار کردے تو لوگ ناراض ہو جاتے ہے ساتھ ساتھ دو تین ادھر ادھر کی باتیں بھی ٹھونس دیتے ہیں۔ ہمارے عوام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف اس بیماری کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے تو دوسری طرف اس بیماری کے علاج کے لئے پیاز سے لے کر اب تک ہر پودے کا قہوہ پی چکے ہیں لیکن ماسک نہیں پہننا اور جو لوگ اس بیماری کے حوالے سے سنجیدہ ہے وہ بھی اپنے اردگرد کے لوگوں کی باتوں کی وجہ سے ماسک پہننے سے کتراتے ہے۔

حکومت نے ہمارے معاشی حالات کو دیکھ کر لاک ڈاؤن تو ختم کر دیا لیکن اس کے ساتھ ایس او پیز (سٹینڈرڈ آپریشن پروسیجر) پر سختی سے عمل کرنے کا حکم بھی دیا ہے اب یہ ہماری عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر سختی سے عمل کر کے اپنے آپ کو اور اردگرد اپنے پیاروں کی زندگی کو محفوظ بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments