ہمارا کوئٹہ


خوبصورت وادی سے بڑا شہر بننے میں کم و بیش ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرا۔ یہ وادی قندھار ولایت (صوبہ) کا تحصیل شالکوٹ تھا۔ مگر جب گل نصیر خان نے احمد شاہ ابدالی کا ساتھ دیا، مرہٹوں کی لڑائی میں تب اس وادی کو گل نصیر خان کے حوالے کر دیا (کچھ بزرگوں کا کہنا ہے کہ شال سے مراد دوپٹہ ہے پشتون ثقافت میں شال تحفے میں دیا جاتا ہے یا تحفے کی علامت ہے اس لیے احمد شاہ ابدالی نے گل نصیر خان کی بہن کو شال تحفے میں دی تھی) ۔

کوئٹہ نام پشتو لفظ (کوٹہ) سے لیا گیا ہے کوٹہ سے مراد بیٹھک یعنی مہمان خانہ، دوسرا قلعہ یعنی یہ کہ پرانے زمانے میں شہر کی حفاظت کے لیے چاروں طرف بڑی دیوار تعمیر کراتے تھے۔ کوئٹہ شہر قدرتی طور پر بڑے پہاڑوں کے درمیان ہے اس لیے اس کو کوٹہ کہتے تھے۔

تیسرا یہ کہ جب احمد شاہ ابدالی ہندوستان پر چڑھائی کے لیے جانے والے تھے تو جانے سے پہلے حکم دیا آرمی کو کہ اپنی استعداد کے مطابق مٹی اٹھاؤ اور ایک جگہ جمع کرو، تاکہ واپسی پر پتہ چلے کہ کتنے فوجی جنگ میں جان بحق ہوئے، منطق کا تو پتہ نہیں مگر بجلی گھر تھانہ کے احاطے کے قریب اس جمع مٹی کی ٹیلے کے آثار موجود ہیں۔

خیر قصہ مختصر مستنگ ( مستونگ) ، کابل اور ہرات جیسے شہروں کے نام پشتو قدیم کے الفاظ ہیں۔

لٹل پیرس یعنی کوئٹہ سیاحوں کے لئے ایک بہترین اور پر فضا مقام تھا ہر جگہ سے سیاح تفریح کے لیے ہنہ جھیل، ہنہ اوڑک اور یہاں سے زیارت کے پر فضا مقامات کے لئے جاتے تھے کوئٹہ شہر مہمان نوازی، صفائی اور امن کے لیے مشہور تھا۔ مگر خمینی کے ایران میں انقلاب اور روسی فوج کے افغانستان پر حملے نے کوئٹہ شہر کی ثقافت اور سوچ کو یکسر تبدیل کر دیا۔

ایرانی انقلاب کے ڈر سے سعودی عرب کے شاہی خاندان نے کراچی و کوئٹہ اور ایران کے خمینی جیالوں نے پیسے بانٹے اپنی سوچ کے پیروکار اور خفیہ اداروں میں درندہ صفت کاروباری اداکاروں کو جنہوں نے خون کی ہولی کھیلی۔

ان دوستوں اور خاندانوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا، جو ایک ساتھ افطار ڈنر مسجدوں میں اور ایک دوسرے کے پلاؤ و بریانی کی تحریف کرتے تھے۔

نفرت اتنی بڑی کہ ایک دوسرے کے علماء، ڈاکٹرز اور وکیلوں کو قتل کر دیا، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے ہوئے، ظلم اور بربریت نے تمام پرانے ریکارڈ توڑ دیے۔ سینکڑوں افراد ایک دن مرے! اور بلال خان جیسے معصوم نوجوان کو ہجوم نے بے دردی سے قتل کیا۔ پشتون اور بلوچ اقوام کو ایک دوسرے سے لڑایا، نفرتوں نے جنم لیا یہاں تک کہ تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں نورا کشتی جاری رہی۔

افغان مہاجرین کو اندھا دھند استعمال کیا، جو پناہ کے لیے آئے تھے۔ جن میں پشتون، ہزارہ، تاجک، ازبک اور ترکمان شامل تھے۔ مہاجر کارڈز جاری کیے مگر ان کے دوسری نسل کو بھی شہریت نہ دی گئی جس کی وجہ سے رشوت خوری، اور استحصال شروع ہوا۔ ایرانی بلوچوں کی آمد اور ہجرت کی بھی یہی کہانی ہے۔

رہی بات آبادکاروں کی جو اپنی جعلی ڈگریوں اور جعلی ڈومیسائل سے غریب صوبہ کے ہر چھوٹے بڑے عہدوں پر قابض ہیں۔ جن کے دس یا بارہ جماعتیں پاس افلاطون نظام سرکار چلاتے ہیں۔ اور وفاق میں جعلی ڈگریوں و جعلی ڈومیسائل سے بلوچستان صوبہ کے عہدوں پر قابض ہیں۔

کوئٹہ شہر کی رونقیں بحال کر نے کے لئے تمام مہاجر کارڈز ہولڈرز اور ایرانی بلوچوں کو شہریت دینی ہوگی۔ ایرانی، سعودی منصوبہ بندیاں اور خفیہ اداروں کے کھیل ختم ہونے چاہئیں۔ ایک دوسرے کے سوچوں، فرقوں اور مذہب کو عزت دینی ہوگی۔ تمام گالیوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ تاکہ میرے والد صاحب عبدالخالق مرحوم کے دوستوں کی طرح جن میں ہزارہ، براہوی، بلوچ اور آباد کار شامل تھے ہم بھی ان کی طرح رہیں اور ایک دوسرے کے عزت و آبرو کو اپنا سمجھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments