جو گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں


جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں، یہ کہاوت ہم میں سے تقریباً ہر شخص نے ضرور سن رکھی ہوگی۔ اس کا عملی مظاہرہ ملک کے موجودہ وزیراعظم کی حالیہ تقاریر کو سننے کے بعد دیکھنے میں آیا۔ کورونا وائرس کے آتے ہی دنیا کے تمام ممالک نے اپنی اپنی بصیرت کے مطابق اس وائرس سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی وضع کی، اور اسے پوری قوت کے ساتھ نافذ بھی کیا۔ ان کامیاب حکمت عملیوں میں ماسک پہننے کی پابندی، سماجی فاصلے کو یقینی بنانا اور محدود عرصے کے لئے مکمل بندش (لاک ڈاؤن) شامل تھیں۔ نتیجتاً بیشتر ممالک اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب ہو گئے اور وہاں اب زندگی اپنے معمول کی طرف گامزن ہے۔ سیاحتی مقامات کو کھولنے، سفری پابندیاں ہٹانے اور روزمرہ کی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال کرنے کی تیاری ہو چکی ہے۔

اب اسی دورانیہ میں ہماری حکومت کا رویہ ملاحظہ کیجیے۔ ملک کا وزیراعظم یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ کورونا جس نے دنیا میں تباہی مچا دی ہے اور دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں کو اپنا کاروبار زندگی معطل کرنے پر مجبور کر دیا ہے، ہمیں اس سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمارے اندر قوت مدافعت قدرتی طور پر اتنی زیادہ ہے کہ یہ وائرس ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور ساتھ ہی ایک سائنسی مفروضہ بھی جاری کر دیا کہ یہ وائرس گرم موسم کے آتے ہی خود بخود فنا ہو جائے گا۔

گویا ہمیں نہ تو سائنسی اصولوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی احتیاط کی۔ ان بے بنیاد بڑھکوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کورونا کے مریضوں میں ہوشربا اضافہ، بڑھتی اموات اور ایک لاغر شعبۂ صحت پر بے انتہا بوجھ۔ اب یہی وزیراعظم، جو کل تک مشہور ولن سلطان راہی کی طرز پر جذباتی تقریر فرما رہے تھے، کچھ دن پہلے یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ یہ وائرس آئندہ آنے والے کچھ مہینوں میں اتنی تباہی پھیلائے گا کہ اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ صرف گرجنے والے رہبر اپنے مقلدوں کے لئے سوائے تباہی کا سامان پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔

کورونا وائرس کے پھیلتے ہی ایک بڑی آفت ان مسافروں اور پردیسی پر آن پڑی جو سیاحت یا روزگار کی غرض سے اپنے ممالک سے روانہ ہوئے تھے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے دنیا کے بیشتر ممالک میں مسافروں پر سفری پابندیاں عائد کردیں اور مسافر جہاں تھے، وہیں رکنے پر مجبور ہو گئے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دنیا کے خودمختار ممالک نے فوراً اپنے باشندوں کو واپس اپنے ممالک میں لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع کر دیں۔

خصوصی پروازیں چلائی گئیں، امیگریشن کے قوانین میں نرمی کی گئی اور صلاحیت بڑھانے سمیت وہ تمام اقدامات، جن سے ملکی باشندوں کی واپسی کا عمل تیز تر کیا جا سکتا تھا، ان کا اہتمام کیا گیا اور انتہائی محدود عرصے میں یہ آپریشن مکمل بھی کر لیا گیا۔ دوسری طرف پاکستان کے وزیر اعظم کا کا ردعمل اس قدر قابل ستائش تھا کہ شاید فلموں کے ولن بھی یہ پرفارمنس نہ دے سکیں۔ وزیراعظم صاحب تواتر سے اپنی تقاریر میں فرماتے رہے کہ وہ اپنے پردیسی ہم وطنوں کے لیے انتہائی پریشان رہتے ہیں اور یہ کہ وہ ہر وقت ان کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ پردیسیوں کی تکلیف انہیں اشکبار کر دیتی ہے اور وہ ایسے ایسے اقدامات کریں گے کہ پردیس میں پھنسے ہم وطنوں کے مسائل نمونے حل ہو جائیں گے۔

گزشتہ تین مہینوں سے کئی ہزار پاکستانی مختلف ممالک میں انتہائی کرب اور تکلیف سے گزر رہے ہیں، لیکن وزیراعظم صاحب ان کے لئے مناسب تعداد میں پروازوں کا بندوبست نہیں کر سکے۔ صرف ان کے فراق میں پریشان ہی ہو رہے ہیں۔ پھنسے ہوئے پاکستانیوں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے سیاحت یا روزگار کی غرض سے عرب ممالک کا رخ کیا تھا اور اب روزگار یا زاد راہ ختم ہو جانے کے سبب انتہائی کسمپرسی کی حالت میں وزیر اعظم کے کھوکھلے بیانات سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ذرا اندازہ کیجیے کہ دنیا کے تمام خودمختار ممالک نے سفری رکاوٹوں کے باوجود اپنے باشندوں کے وطن واپسی پر کبھی پابندی نہیں لگائی؛تمام سرحدیں بند ہوجانے کے باوجود اپنے باشندوں کے لیے کھلی رہیں۔ جبکہ پاکستان کی تمام حدود کئی مہینوں سے اپنے ہی باشندوں کے لیے بند ہیں۔

حال ہی میں ملک کے وزیراعظم کی طرف سے پیٹرول کی قیمتوں میں واضح کمی کا اعلان بھی کیا گیا، جس کا سبب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں حیران کن گراوٹ تھی۔ یہ اعلان بھی کسی فلم کے ولن کی بڑھک سے زیادہ ثابت نہ ہوا۔ فیول کی قیمت میں کمی کیا ہونا تھی، عوام کے لیے پٹرول کا حصول ہی ایک چیلنج بن گیا۔

ملک کے وزیراعظم کو ایک ایسے عاشق سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو تواتر سے سے اپنی محبوبہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے مضحکہ خیز حد تک جذباتی دعوے کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ میں تمہارے لئے آسمان سے تارے توڑ کر لا سکتا ہوں ؛ پوری دنیا سے تنہا سینہ سپر ہو سکتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ ان جذباتی دعوؤں کی حقیقت سے وہ خود بھی آشنا ہوتا ہے کہ انہیں کسی صورت بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ اب فیصلہ اس عوام نے کرنا ہے کہ وہ اس معصوم محبوبہ کی طرح جذباتی دعوؤں سے مرعوب رہنا چاہتے ہیں یا پھر منطق کو اپنی شخصیت کا لازمی جزو بنا کر حقیقت کی دنیا میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ مسائل کا حل ان کے اسباب پر غور و خوض کرنے میں ہے نہ کہ کسی مجنوں کی مسحور کن اور غیر منطقی باتوں سے مرعوب ہو کر اس کی اندھی تقلید کرنے میں۔

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments