قرنطینہ کے بائیس دن


کوویڈ 19 سے پہلے زندگی بہت ہموار تھی۔ اس وبائی مرض سے پہلے بھی بیماریاں اور پریشانیاں تھیں لیکن اس سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے۔ راتیں اتنی لمبی اور خوفناک محسوس ہوتی ہیں کہ ہر سیکنڈ ایک دہائی کی طرح گزرتا ہے۔ تنہائی اور اکیلا پن ایک سست زہر کی طرح ہے جو دماغ اور جسم کو آہستہ آہستہ متاثر کرتا ہے۔ خوف میں رہنا ایک اور مسئلہ ہے جس کا ہر لمحہ کئی طوفانوں پر مشتمل ہوتا ہے اور جب وہ گزرتے ہیں تو یہ ایک نعمت کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

تو، میں ان سب سے کیسے گزر رہی ہوں؟

یقینی طور پر کسی بیماری سے گزرنا آسان نہیں ہے۔ افسردگی محسوس کرنا فطری ہے۔ ہم انسان ہیں اور ہم جذباتی اور جسمانی دونوں طور پر ہی کمزور ہیں۔

اس بیماری سے گزر کر میں سیکھ رہی ہوں اور مجھے ایک چیز پر یقین ہے کہ، ”جو کچھ آپ سے لیا گیا ہے وہ کسی بہترین صورت میں آپ کی طرف لوٹایا جائے گا“ ۔ حضرت ایوب کو کس طرح سے آزمایا گیا؟ اگر آپ کو یاد ہو تو ان کو اپنے پیاروں کی موت سے آزمایا گیا، تنہائی سے آزمایا گیا، غربت سے آزمایا گیا۔ انہوں نے اس بیماری کا تجربہ کیا جس نے پھوڑوں کی شکل میں ان کے پورے جسم کو کئی سالوں سے ڈھانپ رکھا تھا۔ انہوں نے کیا کیا؟ کیا انہوں نے اپنے حق تعالیٰ سے شکایت کی؟ انہوں نے گلہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا، میں اسی طرح زندہ رہوں گا جیسے میرا رب چاہتا ہے کہ میں زندہ رہوں۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ میں ذرا سی بیمار ہوں اور میں خود کو افسردہ اور پریشان محسوس کر رہی ہوں۔ حضرت ایوب سات سال تک اس بیماری کو کس طرح برداشت کرتے رہے؟ کہاں سے انہیں اس قسم کا صبر ملتا ہے؟ کیا اس لئے کہ وہ نبی تھے؟ نہیں! یہ اس لئے کہ انہیں اللہ پر پختہ یقین تھا۔ ان کا دل شکر اور صبر سے بھر گیا۔ تو، اللہ نے اپنے پیارے نبی کے ساتھ کیا کیا؟ اللہ نے ان کا سارا درد دور کر دیا اور اسے راحت میں تبدیل کر دیا۔ اللہ نے ان کی بیماری کو برکت میں بدل دیا۔ وہ جو کھو گیا تھا وہ ان کے پاس دوبارہ لوٹ گیا تھا۔ ان کے پختہ اعتقاد اور صبر کے سبب۔

اتنے برسوں تک بیماری میں رہنا آسان نہیں۔ اپنے پیاروں کو کھونا آسان نہیں ہے۔ تنہائی میں رہنا آسان نہیں ہے۔ اب میں اسے محسوس کر سکتی ہوں۔ اس سے پہلے میں یہ کبھی محسوس نہیں کرسکی تھی۔ آپ کسی کے درد کو اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ کو وہی درد نہ ہو۔ میں اسے محسوس کر رہی ہوں۔ میں محسوس کر رہی ہوں کہ بیماری کے ساتھ زندگی گزارنا کیسا محسوس ہوتا ہے۔ بے شک جو کچھ آپ سے لیا گیا ہے وہ آپ کے پاس سب سے بہترین شکل میں واپس آ جائے گا۔ لہذا میری صحت بھی بہترین شکل میں میرے تک واپس آئے گی۔

یہ ایمان ہی ہوتا ہے جو انسان میں حوصلہ اور مضبوطی لاتا ہے۔ جو کوئی بھی بیمار ہے اسے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بیماری کو تندرستی میں بدلنے والا اللہ ہے۔ اس کا شکر ادا کریں اور گناہوں پہ استغفار کریں۔ وہ چاہے تو آپ کی سانس میں ہی شفا بھر جائے، نا چاہے تو کوئی دوا کوئی نسخہ اثر نا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments