پاکستان میں کرونا ایک منافع بخش بزنس کی شکل اختیار کر گیا ذمہ دار کون؟


کرونا نامی وبا جو موت کے پنجہ گاڑے ہر ذی روح کو نگلنے کے لئے تیار ہے۔ ایک وبائی مرض جو دیکھتے ہی دیکھتے ان چند ماہ میں ساری دنیا کی معیشت برباد کر گیا اور جہاں ساری دنیا اس وبائی مرض کے ہاتھوں بے بس دکھائی دی وہاں پاکستانی قوم نے یہاں بھی اپنے کاروباری دماغ کا خوب استعمال کیا اور جان کی پرواہ کیے بنا صرف ایک کوشش جاری رکھی کہ اس بیماری کو بھی آمدنی کا ذریعہ بنا کر اپنے بینک بیلنس میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ کیا جاسکے۔ بے شک وہ اضافہ انسانی لاشوں کے انبار سے حاصل ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

آب ہم نظر ڈالتے ہیں چار ماہ قبل کے حالات پر جب کرونا ایک کافر مرض تھا اور بحیثیت مسلمان ہم مطمئن تھے کہ ایسی بیماریاں ہمیں چھو نہیں سکتیں کہ ہم حلال کھانے والی قوم ہیں بے شک وہ حلال کمانے کے ذرائع حرام ہوں۔ پھر ہمارا یہ خیال اس وقت خام ثابت ہوا جب سنا پڑوسی ملک کی سرحد سے ہوتا یہ کرونا اس سرزمین تک بھی پہنچ گیا ہے۔ جس سے نبٹنے کے فوری اقدامات میں ماسک اور سینی ٹائزر لازمی قرار دیا گیا تو سمجھو فارمیسی والوں کی چاندی ہو گئی۔

دس روپے کا عام ماسک تیس روپے سے ہوتا سو تک پہنچ گیا۔ جبکہ این 95 تو دم دبا کر بھاگ گیا اور اگر کہیں پایا بھی گیا تو بلیک میں اور یہ ہی حال سینی ٹائزر کا ہوا لیکن پھر بھی یہ سب عوام کے لئے قابل قبول تھا اور ان نامساعد حالات کے باوجود لوگوں نے اس کا متبادل تلاش کر لیا۔ کپڑے کے ہوم میڈ ماسک اور ہوم میڈ سینی ٹائزر جن کی بدولت پاکستانی قوم نے سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ عدلیہ کے ایک فیصلہ کے مطابق ایک دم ختم ہو جانے والے لاک ڈاؤن نے کرونا کو تیزی سے پھیلایا۔ شرح اموات میں اضافہ کیا۔ گورنمنٹ اسپتال میں وینٹی لیٹر کی کمی۔ کٹس کا ختم ہوجانا۔ یہ سب وہ عوامل تھے جنہوں نے منافع خور مافیا کی چاندنی کر دی اور اس وقت ملک میں یہ صورت حال ہے کہ موت کے اس ہولناک رقص میں بھی مال و دولت جمع کرنے والے حریص چاہتے ہیں کہ یہ رقص انہیں دنوں میں ارب پتی کردے۔

اس وقت حالات یہ ہیں کہ گورنمنٹ اسپتال کہتے ہیں کہ ان کے پاس زیادہ سیریس مریضوں کے لئے وینٹی لیٹر اور بیڈ موجود نہیں ہیں جبکہ پرائیویٹ اسپتال ایک دن کا ایک لاکھ چارج کر رہا ہے۔ اور چودہ دن کے کم ازکم آٹھ سے دس لاکھ صرف وینٹی لیٹر چارجز ایسے مانگے جا رہے ہیں جیسے پاکستانی کرنسی کو کرونا نے ڈالر میں تبدیل کر دیا ہو اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ تڑپتے سسکتے مریض کو دی جانے والی ابتدائی دوائیاں بھی بازار سے غائب ہیں۔

اب ہم آ جاتے ہیں پلازما کی طرف جو اس وقت کرونا کی بیماری میں سب سے زیادہ اہم ہے اور یہ ایک کرونا سے صحت یاب ہونے والے مریض سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اور اسے دوسرے کرونا مریض کو بلڈ گروپ کے اعتبار سے لگایا جاتا ہے اگر یہ بروقت مل جائے تو مریض کے نوے فیصد بچنے کی امید کی جا سکتی ہے مگر افسوس پاکستانی عوام کے بزنس دماغ کی جو ان حالات میں بھی خوب چل رہا ہے کہ موت کے منہ سے واپس آنے والا کرونا کا ایک صحت یاب مریض اپنا پلازما لاکھوں میں بیچ رہا ہے اور شاید اس وقت سب سے زیادہ یہ ہی کاروبار زوروں پر ہے جس نے ساری انسانیت کا منہ کالا کر دیا ہے کہ انسانی زندگی دو کوڑی کی ہو کے رہ گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان سب حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا کسی بھی ملک کے پرائیویٹ ادارے اتنے شتر بے مہار ہوتے ہیں کہ حکومت انہیں لگام نہ ڈال سکے شاید نہیں۔ یہ صورت حال جس کا شکار اس وقت پاکستانی عوام ہے یقیناً کسی دوسرے ملک میں نہیں ہے کہ موت کا گھناؤنا کاروبار جو خون بیچنے۔ اپنے گردہ لاکھوں میں فروخت کرنے کے بعد اب پلازما تک آ گیا ہے اور جانے کہاں تک جائے۔

نفیسہ سعید
Latest posts by نفیسہ سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments