فاشزم کا ہم صرف نام ہی سنتے ہیں


بھارت میں مسلمان لگ بھگ بیس کروڑ ہیں اور کل آبادی کا پندرہ فیصد، بالکل محب وطن بھی ہوں گے لیکن سماجی دباؤ اور سرکاری پالیسیوں نے ایسا کس کر اور دیوار سے لگا کر رکھ دیا ہے کہ ہر سطح پر، ہر فورم پر، ہر جگہ پر جے ہند جے ہند کرتے پھرتے ہیں اور پھر بھی انہوں نے اتنی جارحیت سے شک اور نفرت کی نوک پر رکھا ہوا ہے کہ ہر گھڑی جان و آبرو کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ان سے مزید پسپائی کے مطالبے کیے جاتے ہیں۔ کبھی پاکستان کو برا بھلا کہنے کے، کبھی بندے ماترم پڑھنے کے اور کبھی اپنے مذہب کو برا بھلا کہنے کے، کہیں ان کی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے روکنے کے۔

مجال ہے جو انڈین مسلم کشمیر، آسام، ناگالینڈ، منی پور، تری پورہ، اروناچل پردیش کے بارے میں یا پاکستان و چین و نیپال سے کشیدگی سمیت کسی بھی سیاسی مسئلے پر سرکاری موقف سے اختلاف کی جرات کر سکیں ان موضوعات پر اختلافی رائے صرف کوئی دوسرا ہندو ہی دے پاتا ہے کیونکہ اس پر دیش دروہی کا الزام نہیں لگتا نا ہی اسے پاکستان جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

کون سی جمہوریت، کون سی عدالت و انصاف جو تھوڑی بہت ناز برداری نما رواداری بھارت ان کی پاکستان کے خوف سے یا اپنے سیکولر آئین کی وجہ سے کر لیتا تھا۔ وہ پاکستان کی کمزوری اور انڈیا کی معاشی مضبوطی کے بعد وہ بھی نا رہی اور جب سے انڈین قوم پرستی ہندو توا کے فاشزم کی یرغمال بنی ہے۔ تب سے ان کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ صرف بڑے شہروں میں رہنے والے اور ان میں سے بھی مسلم آبادیوں میں مرتکز ہونے والے شاید رات کو سکون سے سو پاتے ہوں، قصبوں میں رہنے والے شودروں کی طرح جی بھائی جی بھائی کر کے زندہ ہے اور دورافتادہ گاؤں دیہات میں جہاں میڈیا وغیرہ کی رسائی کم ہے۔ انہیں آہستہ آہستہ ہندو بنانے کا عمل شروع ہو چکا ہے گو کہ وہ ہندو بننے کے بعد بھی اچھوت ہی رہیں گے۔ ہندو فاشسٹ تنظیمیں اس عمل میں ”اسپین سے مسلمانوں کے خاتمے“ والے طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں گو کہ ابھی انہیں اس عمل میں قانونی مدد دستیاب نہیں لیکن طاقت کے بہیمانہ استعمال اور سرکار کی چشم پوشی اسے ممکن بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے سامنے صرف وہ رپورٹس آ پاتی ہیں جو کسی طرح فلم بند ہو کر منظر عام پر آ جائے یا کسی طور رپورٹ ہو جائے اور آپ جانتے ہیں کہ ایسا صرف سو میں سے کسی ایک کیس میں ہو پاتا ہے۔

کوئی کمزور دشمن بنانا یا ڈھونڈنا اور پھر اسے مغلوب کر کے خود کو فتح کے نشے سے سرشار کرنا اور طاقتور ہونے کا اعتماد حاصل کرنا ہر قسم کے فاشسٹوں کا یکساں اور پرانا طریقہ کار ہے۔

انڈین مسلم سے کافی بہتر حالت میں تو سکھ ہیں جو صرف دو کروڑ ہیں اور آبادی کا % 1.7 ہیں لیکن ان کی آبادی کی اکثریت کیونکہ ایک ہی جگہ مرتکز ہے تو ان کی بات سنی بھی جاتی ہے اور مانی بھی اور پھر شاید ان کی ناراضگی سے زیادہ ان کے جغرافیائی طور پر پاکستان کے پڑوس میں ہونے اور پاکستان کی طرف مائل ہونے کا خوف بھی اس کی وجہ ہو۔

سچر کمیشن رپورٹ میں مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی حیثیت اور کاروبار، روزگار اور سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب دلتوں اور دیگر شیڈولڈ کاسٹ کے افراد سے بھی کم تر بتایا گیا تھا اور اس میں بہتری کے لئے سرکار کو تجاویز بھی دی گئی تھیں جن پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔

کوئی فاشسٹ اکثریت جب اس طرز کی بکھری ہوئی اقلیتیں کو کچلنے پر آ جائے تو مفلوج اور معدوم کر کے ہی دم لیتی ہے اور بھارتی مسلمانوں میں تو اتنا دم بھی باقی نہیں رہا کہ وہ اس کے خلاف احتجاج بھی کر سکیں۔

جب بھی دنیا بھر کہیں بھی کسی اکثریتی گروہ کو یہ مطالبے کرتے دیکھتا ہوں جس میں وہ کسی اقلیتی گروہ یا کمزور گروہ کو مختلف حیلوں ہتھکنڈوں اور ریاستی و انتظامی طاقت یا عوامی دباؤ سے مجبور کرے کہ وہ اکثریتی گروہ کی زبان، ثقافت، مذہب، مسلک یا اس کی شناخت کو لازمی اپنائے ورنہ اس پر زمین پر جینا دشوار تر کر دیا جائے گا۔ بھارتی مسلمانوں کی صورتحال میری نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments