انصاف کے پلڑے میں سب برابر


دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمن فضائیہ نے برطانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی تو جرمن بمباری سے گھبرا کر عوام نے برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل سے استدعا کی تو جواب میں چرچل نے ایک سوال پوچھا: ”کیا ہماری عدالتیں انصاف مہیا کر رہی ہیں؟“ جب جواب ملا کہ برطانوی عدلیہ لوگوں کو انصاف مہیا کر رہی ہے تو چرچل نے سکھ کا سانس لیا کہ عدالتیں فعال ہیں تو دشمن ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ پاکستان جو اس وقت دوسری جنگ عظیم کے مساوی بحران سے گزر رہا ہے اور کورونا وبا کے باعث لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں تو پاکستان اس آزمائش سے باہر نکل آئے گا اگر ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں۔

الحمدللہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے کورونا وبا کا سو موٹو نوٹس لیا اور حکومت وقت کو ہدایات جاری کیں کہ اس موذی مرض سے نمٹنے کے لئے کون سی تدابیر اختیار کرنا لازمی ہے اور عوام کو کس طرح سکون فراہم کیا جائے۔ قانون کی بالادستی، شفاعت اور احتساب نہ صرف جمہوریت بلکہ اسلام کا بھی اہم عنصر ہے۔ اسلام میں قانون کی اہمیت کا نوٹس امریکہ جیسے ملک نے بھی لیا جو جمہوریت کا علم بردار تصور کیا جاتا ہے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں سپریم کورٹ کی عمارت میں بڑے ہال کی دیواروں پہ ان 18 عظیم عالمی رہنماؤں کے نام درج ہیں جنہوں نے دنیا کو قانون فراہم کیا۔ ان ناموں میں نزول ہونے کی تاریخ کے مطابق ہمارے پیارے نبی ﷺ کا بھی نام درج ہے جنہوں نے دنیا کو قرآن حکیم سے متعارف کرایا۔ کلام پاک ایک مکمل ضابطہ حیات اور سر چشمہ ہدایت ہے۔ قرآن حکیم قانون کی بالادستی اور احتساب کی تعمیل پہ زور دیتا ہے۔

اس سنہری اصول کو نہ صرف ہمارے پیارے نبی ﷺ بلکہ صحابہ کرام نے اپنایا اور دل و جان سے اس پہ عمل کیا۔ خلفائے راشدین میں سیٔ دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ ایک مرتبہ جمعہ کی نماز سے قبل خطبہ ادا کرنے کھڑے ہوئے تو ایک نوجوان نے انہیں ٹوکا کہ خطبہ شروع کرنے سے قبل آپ ایک سوال کا جواب دیں۔ بیت المال سے ہم سب کو ایک ایک چادر عطا ہوئی۔ آپ اتنے دراز قد ہیں تو آپ کا لباس صرف ایک چادر میں پورا نہیں ہوتا تو آپ نے دوسری چادر کہاں سے حاصل کی؟ حضرت عمرؓ نے بالکل برا نہ مانا اور احتساب کے عمل کو جاری رکھنے کی خاطر لب کھولنے والے تھے کہ ان کے فرزند ارجمند عبداللہ بول پڑے کی یہ درست ہے کہ دراز قد کے باعث میرے والد کا لباس ایک چادر میں پورا نہیں ہوتا لیکن کسی دوسرے مسلمان کا حق نہیں مارا گیا بلکہ جو چادر مجھے عطا ہوئی تھی وہ میں نے اپنے والد کو دے دی۔ ”

پاکستان میں عدلیہ نے طویل سفر طے کیا ہے۔ جہاں ماضی میں جابرانہ حکومتوں نے اعلیٰ عدالتوں کو گھر کی لونڈی بنالیا تھا اور اپنے دور کو طول دینے اور جائز قرار دینے کی خاطر عدلیہ اور منصفوں سے جبر اور استبداد کے ذریعہ من مانے فیصلے لکھوا لیتے اس تاریک دور میں استغاثہ کو اغواء کرا لیا جاتا، منصفوں کو ڈرایا دھمکا یا جاتا اور جب بھی کوئی مقد مہ کسی طاقتور کے خلاف عدالت میں پیش ہوتا تو ججوں اور ان کے گھر والوں کو قتل کی دھمکی دی جاتی اور انصاف کی دھجیاں بکھیر دی جاتیں۔

قانون کو اندھا تصور کیا جاتا ہے کیونکہ منصف کو اپنا فیصلہ رنگ، نسل، سماجی پوزیشن کو تو نظر انداز کر کے محض انصاف کی بنیاد پہ سنانا پڑتا ہے۔ قانون کی نظروں میں بادشاہ اور گدا دونوں برابر ہیں۔ مشہور تورانی فلسفی اناکارسس نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ”قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں۔ بڑے جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔“ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا لیکن اب عدلیہ آزاد ہے۔ اس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں اور فیصلے میرٹ کے مطابق سنائے جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب کوئی حکمران یا اعلیٰ منصب پہ فائز شخص خطا کا مستوب جب ہوتا تو عام قصور وار کے مقابلے میں یہ سنگین خطا ہوتی ہے۔ قانون سب کے لئے برابر ہے لیکن اگر قانون کا رکھوالا خود ہی قانون کی پاسداری نہ کرے تو وہ کڑی سزا کا حقدار ہوگا۔ قانون کے رکھوالے کو یہ عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ عوام تک انصاف مہم پہنچائے۔

انصاف کی اعلیٰ ترین روایات کو برقرار رکھا جائے اور اپنے مقدس فریضے کو احسن طریقے سے انجام دے۔ پاکستان کی ترقی، خوش حالی اور بہبود کی پیش رفت اسی وقت ممکن ہے جب حکمرانوں کا کڑا احتساب ہو۔ ماضی میں حکومتیں خود ہی قومی خزانے کو لوٹ کر اپنی دولت میں اضافہ کرتی رہیں۔ ان کے بینک بیلنس بڑھتے رہے۔ انہوں نے محل تیار کیے بیرون ملک جائیداد اکٹھا کیں۔ یہ لوگ بھول رہے ہیں۔ کہ قرآن حکیم کی سورۃ الھمزۃ میں واضح حکم ہے۔ ویل لکل ہمزۃ لمزہ۔ الذی جمع ملا و عددہ۔ یحسب ان مالہ اخلدہ۔ کلا لینبذن فی الحطمۃ۔ ترجمہ خرابی ہے اس کے لئے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے بدی کرے جس نے مال جوڑا اور گن گن کر رکھا۔ کیا یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے دنیا میں ہمیشہ رکھے گا ہرگز نہیں ضرور وہ روندنے والی (آگ) میں پھینکا جائے گا۔

حکومت وقت ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں جنہوں نے عوام کا حق مارا اور اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔ ان میں سے کچھ نے انصاف کے دائرے سے بچنے کی خاطر راہ فرار اختیار کی اور بیرون ملک بھگوڑے بن کر رہ رہے ہیں۔ وہ بھول رہے ہیں کہ خدا کی نگری میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اسی سلسلے میں حکومت وقت نے تمام حکومتی اہلکاروں سے اپنے اثاثے، اپنی اور اپنے خاندان والوں کی شہریت، پاسپورٹ کی تعداد سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔ یہ معلومات بہم پہنچانا ہر ایک کا فرض ہے خواہ وہ کسی سی بھی محکمہ سے تعلق رکھتا ہو بیشک عدلیہ کا افسر ہو۔ قانون سے بالا تر کوئی نہیں۔

حکومت نے حال ہی میں چینی اور آٹا کے اسکینڈل سے متعلق تفتیشی رپورٹ منظر عام پہ پیش کی جس میں حکومتی پارٹی کے اعلیٰ عہدے داران کے بھی نام تھے۔ یہ خوش آئند قدم ہے اور حاکم وقت اگر ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتا ہے تو ہر پاکستانی شہری کا حکومت کا ساتھ دینا فرض ہے تاکہ ہم انصاف پر مبنی ریاست قائم کر سکیں۔

اگر ریاست مدینہ قائم کر نی ہے اور پاکستان کو اسلامی روایات پہ چلانا ہے تو احتساب کے سنہری اصولوں کو یاد رکھنا لازمی ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کا مکان مسجد نبوی کے ملحقہ تھا اور اس کا پرنالہ مسجد نبوی کے صحن میں کھلتا تھا۔ بارش کے دنوں میں حضرت عباسؓ کی چھت سے پانی مسجد نبوی کے نمازیوں کے لئے دشواری پیدا کرتا۔ حضرت عمرؓ جب خلیفہ تھے تو انہوں نے حکم صادر فرمایا کہ پرنالہ بند کر دیا جائے۔

حضرت عباسؓ نے خلیفہ وقت کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ انہوں نے قاضی سے درخواست کی یہ پرنالہ پیارے نبی ﷺ کے وصال مبارک سے قبل تعمیر کیا گیا تھا اور انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ قاضی نے تمام شہادتیں سنیں اور فیصلہ حضرت عباسؓ کے حق میں دیا۔ اسے سننے کے بعد حضرت عباسؓ نے اپنا گھر ہی مسجد نبوی کی توسیع کے لئے وقف کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ آپ نے یہ فیصلہ پہلے کیوں نہیں کیا۔ ان کا جواب تاریخی تھا کہ ”اگر میں فیصلے سے پہلے یہ عمل کرتا تو لوگ سمجھتے کہ میں نے تمہارے خوف سے یہ فیصلہ کیا۔ لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ اسلام میں انصاف ہے جبر نہیں۔“ ہمیں اگر انصاف کے راستے پہ گامزن رہنا ہے تو یہ جان لینا چاہیے کہ کوئی بھی انصاف سے بالاتر نہیں ورنہ بقول فیض:

بنے ہیں اہل ہوس، مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments