تمہیں خیال ذات ہے، شعور ذات ہی نہیں


اس وقت پاکستان بھی علم، عقل اور عمل کے بحران سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ 70 سالوں میں جو بھی لوگ پاکستان کے حکمران رہے ان کے پاس شور کرنے کو بہت کچھ تھا مگر شعور نہ تھا۔ جب پاکستان بنا تو یہ مسلمانوں کے شعور کی وجہ سے بنا اور اس وقت کے لوگوں کے پاس عمل تو بہت تھا مگر عقل کی کچھ کمی سی تھی اور عمل کے معاملہ میں بھی وہ یکتا نہ تھے۔ پہلے کچھ سال تو جمہوریت کا کمزور پودا ملک کا نظام چلانے کی کوشش کرتا رہا اور پاکستان سیاسی اور سماجی طور پر کمزور ہوتا گیا اور ہمارے حکمران دوسروں کے مفادات کے لئے عوام کو حقیر اور فقیر بناتے رہے اب الزام مارشل لا پر لگایا جاتا ہے کہ ایوب خان نے خود سری کی مگر ہمارے سیاسی لوگ مفادات کی جنگ میں اتنے شریک تھے کہ ملکی اداروں کو سوچنا پڑا کہ وہ ملک کو بہتر چلا سکتے ہیں، دنیا میں آزادی اور خود مختاری کے دعویدار دوست ممالک بھی اپنے مفادات کے کارن پاکستان کو خراب کرتے رہے۔ اس وقت کے عوامی نیتا ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات کے نتائج پر غیر جمہوری رویہ اپنایا، اس وقت کی سیاست اور جہموریت نے پاکستان تقسیم کر دیا۔

اس وقت پاکستان پھر ایک دفعہ سیاسی ، سماجی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان بظاہر پوری کوشش کر رہے ہیں کہ سماجی، سیاسی اور معاشی بحران سے مقابلہ کیا جائے اور ملک کو ترقی کے راستہ پر رواں کیا جائے مگر افسوس کہ عمران خان اکیلا ہے۔ عمران خان جب کرکٹ کھیلتا تھا تو بھی اکیلا تھا وہ لوگوں پر اعتماد کرتا تھا مگر بھروسا اس کو اکثر مشکل میں ڈال دیتا تھا۔ اور کچھ ویسی صورتحال اب بھی ہے۔ عمران خان کی سیاسی جماعت میں زیادہ لوگ پرانے سیاسی کھلاڑی ہیں، انہوں نے مفادات کے تناظر میں ہر قسم کی سرکار کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ کپتان کو بڑا مان تھا کہ ملک میں کرپشن کو شکست ہوگی۔ جمہوریت کا لاغر درخت عوام کے لئے سایہ و پھل دار بنے گا، مگر وہ اکیلا کس کس سے لڑے۔ انتخابات کے بعد اس کو اندازہ ہوا کہ بیرونی مداخلت اس کو قبول کرنا پڑے گی اور اس کے نتیجہ میں کچھ لوگوں کو شامل حکومت کرنا پڑا، عمران خان کی حکمرانی کو دیکھنے کے بعد خیال آتا ہے۔

نہ اتنی تیز چلے، سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

عمران خان کو ہر طبقہ فکر سے شکایت ہے۔ اس کی بدنصیبی کہ وہ ملک بدلتے بدلتے خود ہی بدل گیا۔ ملک میں نوکر شاہی شتر بے مہار ہے اور اس کی کابینہ کے لوگ اس کی سنتے تو بہت ہیں مگر کرتے اپنی من مانی ہیں۔ اب ذرا قانون اور انصاف کا معاملہ ہی لے لیں۔ قانون پر قانون بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور پھر ہمارا نظام انصاف بھی کمال کا ہے، اس کے ثمرات سے محض اشرافیہ مستفید ہو رہی ہے، جس طریقہ سے سوشل میڈیا پر عدالتی نظام پر طنز و تنقید کی جا رہی ہے وہ عوامی ردعمل جمہوریت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

ہمارے سیاسی نیتا اور ان کے حواری جس طریقہ سے عوام کی جنگ لڑنے کا ڈرامہ کرتے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ سابق خادم اعلیٰ شہباز شریف حزب اختلاف کے لیڈر کی حیثیت میں مراعات تو لیتے رہے مگر حزب اختلاف میں اختلاف ہی نمایاں رہا اور بداعتمادی میں اضافہ ہوا۔ ابھی تک انہوں نے کسی بھی عوامی معاملہ پر نہ کوئی رائے دی اور نہ ہی فکر کی، ان کو زیادہ فکر اپنے مقدمات اور بچوں کے مفادات کی ہے۔ کسی شدید غلط فہمی کی وجہ سے وہ لندن کی مدہوش فضا چھوڑ کر پاکستان آ گئے، اب جیل جانے سے ڈر رہے ہیں۔ اب عوام کے لئے جیل یاترا کریں اور عوام کو باور کرائیں کہ جیل تو ان کی سیاست کا سنگھار ہے مگر اقتدار اور اختیار کا نشہ ہے کہ جاتا ہی نہیں۔

دوسری طرف سابق صدر زرداری نے صحت کے کارن اپنی سیاسی گدی اپنے سپوت بلاول زرداری کے حوالہ کر دی۔ وہ بیچارہ سندھ کی سیاست سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں۔ سندھ کی وڈیرا شاہی سیاست کا نشہ ایسا ہے کہ اترتا ہی نہیں۔ اس وقت سندھ کی جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ان کے دعوے تو بہت ہیں مگراس وقت سندھ شدید سماجی اور سیاسی مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ دوسری طرف کراچی میں عوام کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور صوبے کے وزیراعلیٰ صرف اور صرف مرکز سے لڑتے نظر آتے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم اور صوبائی خود مختاری نے انہیں اتنے اختیارات دے دیے ہیں کہ وہ ستارے توڑنے کی باتیں کرتے ہیں مگر عملاً ہوتا کیا ہے

کون لاتا ہے ستارے توڑ کر
راہ میں سانس ٹوٹ جاتی ہے

بات وقت کی ہو رہی تھی۔ جو نہ رکتا ہے اور نہ ہی ٹلتا ہے۔ عمران خان کے پاس وقت کم ہو رہا ہے۔ وہ جو سوچ لے کر آیا تھا وہ اس سے پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی مگر وہ ایک شعوری کوشش تو کر سکتا ہے۔ اور حال دل بیان کر سکتا ہے کہ کون کو ناس کو روکتا رہا ہے۔ ملک کے اہم اداروں کے کیا ارادے تھے اور وزیراعظم پاکستان کو اس کئی کیا قیمت ادا کرنی پڑی ہمارے سیاسی لوگ خوب گرجتے رہے مگر عوام کے لئے برستے، تبدیلی کے لئے جو قربانی ضروری تھی اس کے لیے مکالمہ نہ ہو سکا مگر کون قربانی دیتا، آپس کے جھگڑے تو ختم نہ کر سکے، تمہارے شور نے عوام کو علم، عقل اور عمل سے محروم کر دیا، پاکستان کے لوگ شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ ملکی نظام کا کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داری پوری کرتا نظر نہیں آ رہا، عدلیہ سے عوام مایوس ہیں۔ انصاف میں تاخیر ہی جہموریت کو کمزور اور سیاست کو مضبوط کر رہی ہے، غریب اور نادار کو نہ بروقت انصاف ملتا ہے اور مقدمات کا فیصلہ صرف امیروں سیاست دانوں اور اشرافیہ کے لیے ہوتا نظر آتا ہے

جو دل کا زہر تھا کاغذ پر سب بکھیر دیا
پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی

وقت رکتا نہیں اور نہ ہی ٹلتا ہے۔ پاکستان میں تبدیلی کا شور بہت تھا مگر شعور نہ تھا۔ ایک صاحب علم سے پوچھا گیا کہ ”شور“ اور ”شعور“ میں کیا فرق ہے۔ صاحب علم تشکیک کا شکار تھا، اس نے ایک صاحب کشف سے رجوع کیا اور ”شعور“ اور ”شور“ کے فرق کی وضاحت کی درخواست کی۔ صاحب کشف ذرا حیران ہوا اور صاحب علم سے بولا، فرق تو معمولی سا ہے اور اس فرق کی رمز صرف ایک حرف میں ہے۔ صاحب علم اور بھی پریشان ہوا اور خفت محسوس کی کہ معمولی سا فرق اور وہ بھی صرف ایک حرف سے۔ صاحب کشف کہنے لگے اگر ”ع“ کا اضافہ کر دیا جائے اور ”ع“ سے جڑنے اور پنپنے والے حروف ہی شور کم کرتے ہیں اور شعور دیتے ہیں۔ اب صاحب علم زچ سا ہو گیا اور طنزیہ لہجہ میں بولا، حضور ”ع“ سے آخر مراد کیا ہے۔ صاحب کشف کو اندازہ ہوگیا کہ یہ صاحب علم عوامی سوچ پر عبور تو رکھتا ہے مگر تشکیک کا شکار ہے۔ صاحب کشف جلدی سے بولے، ”ع“ سے مراد ہے علم، عمل اور عقل۔ اب سنو! علم، عمل اور عقل سے بات کرو گے تو وہ شعور ہوگا ورنہ تمہاری تمام باتیں صرف شور ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments