ہم شکی مزاج قوم ہیں


ہمارے مرحوم استاد محترم یوسف مسیح صاحب ہمیں ڈویلپمنٹ سپورٹ کمیونیکیشن کا مضمون پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن کلاس میں انہوں نے ہمیں عمرانیات کی ایک تھیوری پڑھائی جس کے مطابق سماج پانچ حصوں میں تقسیم ہے۔

پہلے درجے پر تخلیقی سماج یہ طبقہ نئی ایجادات، نئی فکر اور سوچ کے تخلیق کا ر ہوتے ہیں دوسرے درجے پر ایرلی ایڈوپٹر یعنی جلدی قبول کرنے والا طبقہ پہلے طبقے کی سوچ اور فکر کو جلد ہی قبول کرلیتا ہے، تیسرے درجے پر ایریلی میجاروٹی ہے یہ طبقہ ایرلی ایڈوپٹر کے تجربے کے بنیاد پر نئی سوچ اور نظریات کو اپناتے ہیں اس طبقے کو نئے نظریات اپنانے میں تقریباً دس سال کا عرصہ لگ جاتا ہے، چوتھے درجے پر لیٹ میجارٹی ہے۔

استاد محترم کے مطابق لیٹ میجارٹی طبقہ شکی مزاج ہوتا ہے ہر سوچ و فکر کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے یہ لوگ نئی سوچ اور فکر کو اپناتے وقت گومگو کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔

استاد محترم کے مطابق اس طبقے کو پہلے طبقے یعنی تخلیق کار کی سوچ کو اپنانے میں چالیس سال لگ جاتے ہیں۔ اور آخری درجے پر لیگرڈز گروہ آتا ہے جسے عام الفاظ میں خانہ بدوش کہا جاتا ہے یہ طبقہ خود کو بالکل بھی تبدیل نہیں کرنا چاہتا اور نہ اس گروہ کو نئے نظریات اور ایجادات سے کوئی سروکار ہوتا ہے۔

ہم جس سماج کا حصہ ہے اس سماج کو یوسف صاحب چوتھی دنیا کہا کرتے تھے ان کے مطابق ہم شکی مزاج قوم ہیں۔ شک ہمارے خمیر کا حصہ بن چکا ہے جہاں اگر کسی انسان کو بے گناہ مار دیا جاتا ہے تو افسوس کے ساتھ یہ لازمی لوگ کہتے ہیں کہ ”ضرور کچھ کیا ہوگا“ پولیو کے مرض کو وہ بڑی مثال کے طور پر پیش کیا کرتے تھے، پچاس کی دہائی میں پولیو کے مرض نے وبا کی شکل اختیار کی دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا اس کی لپٹ میں آ گئی، لاکھوں لوگ اس مرض سے معذور ہوگئے دنیا نے پولیو سے نمٹنے کے لئے اقدامات اٹھائے اور اس کا صفایا کر دیا۔

دوسری جانب ہمارے بچے آج تک اس موذی مرض سے متاثر ہورہے ہیں اس کی بنیادی وجہ ہمارا شکی مزاج ذہنیت ہے ہم نے پولیو ویکسین کو لے کر من گھڑت سازشی نظریات پیش کیے جس کو ہم من و عن سچ مان لیتے ہیں، تحقیق سے دور بھاگتے ہیں اور ویسے بھی ہم میں تحقیق کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔

اب مذکورہ باتوں کو اگر آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو جب چین میں کرونا وائرس نے سر اٹھانا شروع کیا تو تب ہی سے ہماری شک والی رگ نے پھڑپھڑانا شروع کیا۔ پہلے پہل کہا جانے لگا کہ یہ وائرس مسلمانوں پر اثر نہیں کرے گا یہ کفار کے لئے ہے۔

جب ایران کو لپیٹ میں لیا تو اس بارے میں فرقے کے بنیاد پر رائے قائم کی گئی۔ اور چلتے چلتے سعودی عرب میں کرونا وائرس نے جب پنجے گاڑے تو سعودی حکومت نے خانہ کعبہ میں طواف اور مسجد نبویﷺ میں نماز پر پابندی عائد کردی تو ہم کہنے لگے یہ مساجد کے خلاف سازش ہے۔

اور یوں ہوتے ہوتے جب ہم تک وائرس پہنچا اور وائرس سے ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ تو ہمارا ماننا تھا حکومت خواہ مخواہ دیگر امراض سے مرنے والوں کو کرونا وائرس سے مرنے والوں میں شامل کررہی ہے، لیکن حکومت ایسا کیوں کررہی ہے؟ اس کے لئے ہم نے ایک اور من گھڑت سازشی تھیوری پیش کی زیادہ ہلاکتوں کی بنیاد پر عالمی ادارہ صحت پاکستان کی حکومت کو ڈالر دے رہا ہے۔

اور جب ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی تو ایک نیا مفروضہ گھڑ لیا کہ وائرس سے صرف بزرگ مررہے ہیں نوجوانوں کو کچھ نہیں ہوتا سب کچھ اپنے آنکھوں سے دیکھ لیا اور خاص کر اس کی قوم کی بڑی خواہش تھی کہ جب تک ہم کرونا وائرس سے متاثرہ مریض کو دیکھ نہ لیں تو یقین نہیں کریں گئے۔

مریض بھی دیکھ لئے مریض کو مرتے بھی دیکھ لیا لیکن قسم کھا رکھی ہے کہ وہ یقین اور احتیاط کرے کہ کرونا وائرس جان لیوا اور خطرناک ہے آخری بات۔ ۔ ۔ جہالت ہماری موت ہے اور ہم جہالت کی وجہ سے روز اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments