نیا بجٹ: عوام کو سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا اعلان


وفاقی وزیر صنعت و قومی پیداوار حماد اظہر اور وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی حکومتی ذمہ داری سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری شعبہ میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں کئے جاسکتے البتہ نجی شعبہ کو محاصل اور ٹیکس میں چھوٹ دینے کے علاوہ رعایتی قرضوں کی سہولت فراہم کی جائے گی تاکہ صنعت کار اور تاجر نوجوانوں کو روزگار دے سکیں۔ یہ طریقہ عوام کو سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا اعلان ہے۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے حماد اظہر نے کورونا کی وجہ سے ملکی معیشت کو لاحق شدید بحران کے باوجود دفاعی اخراجات میں 12 فیصد کے لگ بھگ اضافہ کا اعلان کیا تھا۔ قومی بجٹ میں دیگر سب شعبوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دفاع کو مستحکم رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے حالانکہ مالی مشکلات کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں علامتی اضافہ سے بھی گریز کیا گیا۔ بجٹ میں نئے ٹیکس عائد نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن آج کی پریس کانفرنس میں واضح کردیا گیا ہے کہ یہ رعایت دراصل ملک کے صنعتکاروں اور تاجروں کو فراہم کی جائے گی تاکہ نجی شعبہ سے وہ کام لیا جاسکے جس کی بنیادی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ عمران خان یہ وعدہ کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ ان کی پارٹی ملک میں ایک کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرے گی اور پچاس لاکھ غریب خاندانوں کو گھر بنا کر دیے جائیں گے۔ گزشتہ برس کے آخر تک عمران خان یہ دعویٰ کرتے رہے تھے کہ 2020 معاشی احیا اور تبدیلی کا سال ہوگا۔ اس سال کے دوران تحریک انصاف کے روزگار اور گھر دینے کے وعدے پورے ہوں گے۔ حالانکہ پاکستان کی معاشی تنگ دستی پر نگاہ رکھنے والے ماہرین ان دعوؤں کو دیوانے کا خواب سمجھتے تھے۔

اس سال کے شروع میں کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ امریکہ میں ابھی تک یہ تخمینہ نہیں لگایا جاسکا کہ کورونا سے پیدا ہونے والے بحران سے پیداواری صلاحیت اور عوام کی قوت خرید پر کتنا اثر پڑے گا اور ملکی معیشت اس جھٹکے سے کب جاں بر ہوسکے گی۔ یہی حال یورپ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کا بھی ہے۔ چین کی قومی پیداوار میں 6 فیصد سالانہ اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن اب چینی حکومت نے رواں سال کے لئے پیداواری صلاحیت میں صفر اضافہ کا تخمینہ لگایا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد قومی پیداوار میں مسلسل کمی نوٹ کی جارہی تھی۔ یہ تخمینہ تھا کہ سال رواں میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ دو فیصد کے لگ بھگ رہے گا ۔ تاہم اب کورونا وائرس کی وجہ سے قومی بجٹ میں اسے اعشاریہ 4فیصد تک محدود کیاگیا ہے۔ البتہ معاشی ماہرین اس تخمینہ سے متفق نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں قومی پیداوار قیام پاکستان کے بعد پہلی بار منفی ہوجائے گی۔

قومی پیداوار میں کمی کے ملک میں روزگار اور عوام کی قوت خرید پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عام طور سے حکومتیں سرکاری شعبہ میں سرمایہ کاری کے ذریعے معاشی تحرک پیدا کرتی ہیں۔ بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کئے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو روزگا ر مل سکے اور اس طرح سرمایہ گردش میں آئے۔ ا س اقتصادی سرگرمی میں نجی شعبہ بھی حصہ دار بنتا ہے اور مائل بہ زوال معیشت ایک بار پھر پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرکے ترقی کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس کورونا بحران کے بعد زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری کے ذریعے معاشی انحطاط کی روک تھام کرنے کا موقع موجود تھا۔ عالمی سطح پر تیل کی کم ہوتی قیمتوں کی وجہ سے حکومت کو معاشی ریلیف ملا تھا۔ اس کے علاوہ پیرس کلب، آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر مالی اداروں نے قرضوں کی ادائیگی میں رعایت دینے کے علاوہ نئے رعائیتی قرضے دے کر پاکستانی حکومت کو چار پانچ ارب ڈالر کی سہولت فراہم کی تھی۔ اس سرمایہ کو عوامی بہبود کے مقصد سے استعمال کرنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرکے پاکستان نہ صرف کورونا سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹ سکتا تھا بلکہ متعدد ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے معاشی احیا کا مقصد بھی پورا کرسکتا تھا۔

21۔2020 کا بجٹ دیکھنے سے البتہ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت معاشی احیا کے کسی قومی منصوبے کی بنیاد رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ انسانوں میں سرمایہ کاری کا دعویٰ کرنے والے عمران خان کی حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں کی ناکام پالیسیوں کا چربہ پاکستانی عوام پر مسلط کرکے ملک کو سرمایہ دارانہ نظام کی طرف دھکیلنے کے لئے پیش قدمی کی ہے۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں حماد اظہر نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت روزگار دینے کے قابل نہیں ہے البتہ سرمایہ داروں کو محاصل اور ٹیکسز میں چالیس پچاس ارب روپے کی رعایت دے کر نجی شعبہ کو توانا کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ لوگوں کو روزگار فراہم ہوسکے۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام کو وسیع کرکے چھوٹے سرمایہ داروں کے لئے سستے قرض فراہم کرنے کا منصوبہ شروع کیا جائے گا۔ اس طرح روزگار کی مارکیٹ بہتر ہوسکے گی۔ قومی اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کی حوصلہ افزائی کے لئے حکومت نے بجٹ میں کم از کم اجرت مقرر کرنے کا طریقہ بھی ترک کردیا ہے۔ حفیظ شیخ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ہر طریقہ کی ایک مدت ہوتی ہے۔ اب اس پرانے طریقہ کو اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے یہ اندازہ کرنے میں مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ حکومت نے سرمایہ داروں کو غریبوں کا خون چوسنے اور ان کا استحصال کرکے زیادہ سے زیادہ کام لینے اور کم سے کم معاوضہ دینے کے افسوسناک منصوبے کا آغاز کیا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت اور عالمی اداروں سے ’ادھار‘ لئے ہوئے معاشی ماہرین کی حکمت عملی بہت آسان ہے۔ مشکلات کا الزام سابقہ حکومتوں پر عائد کیا جائے اور اگر لوگ اس حکومت سے امید لگائیں تو کورونا کی آڑ میں اپنی نااہلی کو چھپا لیاجائے۔ حفیظ شیخ نے آج منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں اس رویہ کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ ہمیں تباہ حال معیشت ملی لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت کو بحال کرنے کے لئے ایسے ٹھوس اقدامات کئے کہ پوری دنیا اس کی توصیف کررہی تھی۔ عالمی مالیاتی فنڈ ہماری پالیسیوں کو سراہتا ہے، موڈیز نے ہماری ریٹنگ میں اضافہ کیا اور بلوم برگ نے دسمبر 2019 میں ہماری اسٹاک مارکیٹ کو دنیا کی بہترین مارکیٹ قرار دیا۔ لیکن بدقسمتی سے ترقی اور معاشی بحالی کا یہ سفر کورونا کی وجہ سے رک گیا‘۔

حفیظ شیخ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت کو سابقہ حکومتوں کی بے اعتدالی کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت سابقہ ادوار میں لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لئے قرض لے رہی ہے۔ اس بارے میں کوئی ہم پر الزام تراشی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے بتایا کہ کہ ’پاکستان کو تین ہزار ارب روپےٹیکس سروسنگ میں صرف کرنے پڑے ہیں ‘۔ تاہم اسٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ 20 ماہ کے دوران 9209 ارب روپے قرض لیا جس میں سے دو تہائی اندرون ملک اور باقی بیرون ملک سے حاصل کئے گئے قرض تھے۔ حکومت کے مالی منیجرز نہ تو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور نہ ہی اصلاح احوال کی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرسکے ہیں۔ اسی لئے حفیظ شیخ آئی ایم ایف کی توصیف میں رطب اللسان رہے اور اسے حکومت اور پاکستان کی کامیابی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ عملی طور سے ملک کو فلاحی ریاست کی طرف پیش قدمی سے روکنے کا ہر ممکن فیصلہ کیا گیا ہے۔ دفاعی اخراجات میں اضافہ ملک کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کو مزید طاقت ور کرے گا جو پہلے ہی سول حکومت کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سرمایہ داروں کو بالادست اور بااختیار بنانے سے ملک میں غربت کے علاوہ استحصال اور طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہوگا۔

حیرت ہے کہ کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے وزیر اعظم غریب کی پریشانی کا ذکر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ آج بھی لاہور میں پنجاب حکومت کی خواہش کے برعکس انہوں نے لاک ڈاؤن کا مشورہ مسترد کردیا اور کہا کہ عوام کی اکثریت پہلے ہی خط غربت سے نیچے ہے، انہیں روزگار حاصل کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ لیکن ان کی حکومت نے بجٹ کے ذریعے جس پالیسی کا اعلان کیا ہے اس سے نہ صرف غربت میں اضافہ ہوگا بلکہ سرمایہ دار کو غریبوں کا استحصال کرنے کی کھلی چھٹی بھی مل جائے گی۔ اگر یہی عمران خان کی غریب دوستی اور مدینہ ریاست جیسی فلاحی ریاست کا منصوبہ ہے تو یہ ملکی عوام کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اب ٹائیگر فورس کو تحریک انصاف کی ’غنڈہ فورس‘ بنانے کی طرف مزید ایک قدم بڑھایا گیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ یہ فورس اب سماجی دوری کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی صرف رپورٹ نہیں کرے گی بلکہ اسے روکے گی۔ حکومت نہ جانے کون سے قانونی اختیار کے تحت رضاکاروں کے ایک گروہ کو عوام پر پولیس کی طرح مسلط کررہی ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ عمران خان کے ٹائیگرز معاشرے میں ایک نئی تقسیم اور تصادم کا سبب بن سکتے ہیں۔

اس دوران مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے نئے بجٹ کو عوام دشمن اور تنزلی کی طرف قدم قرار دیا ہے۔ ان کی یہ بات درست ہونے کے باوجود قابل اعتبار نہیں ۔ اپوزیشن کی ان دونوں پارٹیوں نے حکومت سے وعدہ کیا ہے کہ وہ بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گی۔ اس معاہدہ کے بعد اپوزیشن لیڈر نہ جانے کس منہ سے اسی بجٹ کی مخالفت میں پر جوش بیانات دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments