ریئلٹی چیک: کیا واقعی ووہان میں کورونا کا وبائی مرض گذشتہ سال اگست میں ہی آ چکا تھا؟


ووہان

کہتے ہیں کہ کورونا کی ابتدا ووہان سے ہوئی لیکن کیا وہ اس سے پہلے سے وہاں موجود تھا یہ بات بحث کا موضوع ہے

امریکہ میں کی جانے والی ایک تحقیق پر تنقید کی جارہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس گذشتہ سال اگست کے اوائل سے ہی چینی شہر ووہان میں موجود ہوسکتا تھا۔

رواں ماہ کے اوائل میں آنے والے ہارورڈ یونیورسٹی کے اس مطالعے کو خاصی شہرت حاصل ہوئی لیکن چین نے اسے مسترد کردیا ہے اور اس کے طریقہ کار پر آزاد سائنسدانوں نے بھی سوال اٹھایا ہے۔

تحقیق کیا کہتی ہے؟

اس تحقیق کا پیئر ریویو یعنی ہم پلہ ماہرین کا جائزہ نہیں لیا گيا ہے لیکن یہ تحقیق ووہان کے ہسپتالوں کے آس پاس ٹریفک کی نقل و حرکت کی سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصاویر اور مخصوص طبی علامات کے لیے آن لائن تلاش پر مبنی ہے۔

سیٹلائٹ تصاویر کی بنیاد پر اس میں کہا گیا ہے کہ اگست کے آخر سے یکم دسمبر سنہ 2019 تک شہر کے چھ ہسپتالوں کے باہر گاڑیوں کی پارکنگ میں قابل ذکر اضافہ دیکھا گيا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس: امریکہ اور چین کی جنگ کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟

#coronavirus: کیا چین چھ دن میں ہسپتال بنا پائے گا؟

کورونا وائرس: ووہان میں ’لاپتہ‘ ہونے والا صحافی دوبارہ منظر عام پر

ہارورڈ کی رپورٹ میں اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوئے اتفاق اسی زمانے میں ‘کھانسی’ اور ‘دست’ جیسی علامات کے لیے انٹرنیٹ پر تلاش میں اضافہ بھی نظر آیا ہے جو کہ کورونا کی ممکنہ علامات ہیں۔

یہ ایک اہم دریافت ہو سکتی ہے کیونکہ ووہان میں ابتدائی طور پر رپورٹ ہونے والا کیس دسمبر کے آغاز تک نہیں تھا۔

ووہان

ریسرچرز نے اس کے لیے ووہان کی ٹریفک کی جانچ کی

محققین لکھتے ہیں: ‘اگرچہ ہم اس بات کی تصدیق نہیں کرسکتے ہیں کہ آیا (ٹریفک اور تلاش کے) حجم میں اضافہ براہ راست نئے وائرس سے منسلک تھا یا نہیں لیکن ہمارے شواہد دوسرے حالیہ کاموں کی تصدیق کرتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہوانان سی فوڈ مارکیٹ میں اس کی شناخت سے پہلے ہی یہ سامنے آ چکا تھا۔’

ہارورڈ کے مطالعے نے میڈیا میں بہت جگہ پائی اور امریکی صدر ٹرمپ، جو چین کی جانب سے وبائی مرض کے خلاف ردعمل کے سخت ناقد رہے ہیں، انھوں نے محققین کے نتائج کو اجاگر کرنے والے فاکس نیوز کی خبر کو ٹویٹ کیا۔ اور اس ٹویٹ کو تیس لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے۔

تو کیا شواہد درست ہیں؟

اس تحقیق میں دعوی کیا گیا ہے کہ مشہور چینی سرچ انجن بیدو پر کورونا وائرس کی علامات اور بطور خاص ‘اسہال’ یا ‘دست’ سے متعلق آن لائن سوالات میں اضافہ ہوا تھا۔

لیکن بیدو کمپنی کے عہدیداروں نے ان کے نتائج کو متنازع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ در حقیقت اس عرصے کے دوران ‘اسہال’ کی تلاش میں کمی واقع ہوئی ہے۔

تلاش

گراف میں بیدو سرچ انجن پر کورونا کی چند علامات کی آن لائن تلاش کو یہاں پیش کیا گيا ہے

تو آخر چل کیا رہا ہے؟

ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں استعمال ہونے والی اصطلاح دراصل چینی زبان میں ‘اسہال کی علامت’ کے طور پر سامنے آتی ہے۔

ہم نے بیدو کے ٹول پر اس کی جانچ کی جس طرح سے صارفین کو گوگل ٹرینڈز سے پتہ چلتا ہے کہ کون سے الفاظ یا چیزیں زیادہ تلاش کی جا رہی ہیں۔

اصطلاح ‘اسہال کی علامت’ کی تلاش میں واقعتا اگست سنہ 2019 سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

لیکن ہم نے صرف ‘ڈائیریا’ کے بارے میں بھی کھوج کی جو دست کے لیے عام اصطلاح ہے تو ہم نے پایا اگست سنہ 2019 سے وبا شروع ہونے تک کہ اس کی تلاش میں واقعتا کمی واقع ہوئی ہے۔

ہارورڈ کی تحقیق کے اہم مصنف بینجمن ریڈر نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہم نے’اسہال’کے لیے جو سرچ اصطلاح استعمال کی وہ اس لیے منتخب کی گئی کیونکہ یہ کووڈ 19 کے تصدیق شدہ کیسوں کے لیے بہترین میچ تھا اور اسے کورونا وائرس سے متعلقہ تلاش کی اصطلاح کے طور پر تجویز بھی کیا گیا تھا۔’

ہم نے تلاش کے لیے کورونا کی دو علامتوں ‘بخار’ اور ‘سانس لینے میں پریشانی’ کی مقبولیت جانچنے کی کوشش کی۔

اگست کے بعد ‘بخار’ کی تلاش میں اضافہ نظر آیا جبکہ اس عرصے میں ‘کھانسی’ اور ‘سانس لینے میں دشواری’ جیسی تلاش میں کمی نظر آئی۔

اس تحقیق میں ‘اسہال’ کو اس بیماری کی علامت کے طور پر لیے جانے پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

برطانیہ میں ہونے والی ایک وسیع تحقیق میں جس میں تقریبا 17 ہزار کورونا وائرس کے مریضوں کا مطالعہ کیا گيا ہے اس میں پتہ چلا ہے کہ سب سے اہم علامات کھانسی، بخار اور سانس لینے میں دشواری کے بعد دست سب سے کامن ساتویں نمبر کی علامت پر تھا۔

کاروں کی تعداد کا کیا مطلب؟

ہارورڈ کے مطالعے میں بتایا گيا ہے کہ اگست سے یکم دسمبر سنہ 2019 کے درمیان چھ ہسپتالوں کی پارکنگ لاٹوں میں کاروں میں اضافہ دیکھا گيا ہے۔

لیکن ہمیں ان کے تجزیے میں کچھ سنگین خامیاں نظر آئی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گاڑیوں کی زیادہ یا کم گنتی سے بچنے کے لیے درختوں کے نیچے اور سائے والی کار پارکنگ کو شامل نہیں کیا گيا ہے۔

بہر حال میڈیا کو جاری کی جانے والی سیٹلائٹ تصاویر میں ہسپتالوں کے کار پارک کے بڑے علاقے ایسے ہیں جو اونچی عمارتوں کی وجہ سے نہیں دیکھے جا سکتے جس سے وہاں موجود کاروں کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔

نیچے دیئے گئے ٹویٹ میں ہم نے ان حصوں کو سفید خانوں کے ساتھ دکھایا ہے جہاں عمارتوں کے حائل ہونے کی وجہ سے واضح تصویر سامنے نہیں آتی ہے۔

https://twitter.com/BenDoBrown/status/1271394721533960193

تیانیو ہسپتال میں زیرزمین کار پارک بھی ہے جو کہ بیدو کی اسٹریٹ ویو فنکشن میں نظر آتا ہے لیکن سیٹلائٹ کی تصاویر میں صرف صرف داخلی راستے ہی نظر آتے ہیں اور زیر زمین پارک کاریں نظڑ نہیں آتیں۔

مطالعے کے مصنفین میں سے ایک بینجیمن ریڈر نے کہا: ‘ہم یقینی طور پر مطالعے کے کسی بھی دور میں زیر زمین پارکنگ کا محاسبہ نہیں کرسکتے ہیں اور یہ اس نوعیت کی تحقیق کی کمیوں میں سے ایک ہے۔’

مطالعہ کے لیے ہسپتالوں کے انتخاب کے بارے میں بھی خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔

https://twitter.com/BenDoBrown/status/1271396483091378181

ان چھ میں سے ایک ہسپتال ہوبیئی ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال بھی ہے، لیکن بچوں کو کورونا وائرس کے لی شاذ و نادر ہی ہسپتال میں علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں مصنفین کا کہنا ہے کہ اگر اس ہسپتال کو تحقیق سے خارج کر دیا جائے تو بھی باقی کے ہسپتال میں کار پارک کے استعمال میں اضافہ نظر آیا ہے۔

محققین کو اپنے اعداد و شمار کا موازنہ کسی دوسرے چینی شہروں کے اسپتالوں کے ساتھ بھی کرنا چاہیے تھا تاکہ یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ کیا انٹرنیٹ پر تلاش اور ٹریفک میں اضافہ صرف ووہان میں ہی تھا جو کہ وبا کے پھیلنے کا ماخذ قرار پایا۔

ہم نے طبی علامات کے بارے میں آن لائن تلاش کے متعلق جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا بغیر موازنہ کیے یہ کہنا کہ ووہان کے رہائیشی اگست کے ماہ سے ہی کورونا کا علاج کروا رہے بہت ہی قابل قبول نہیں ہے۔

ان سب کے باوجود ابھی بھی ہمیں ووہان میں اس وائرس کے ابتدائی پھیلاؤ کے بارے میں ہمیں بہت زیادہ معلومات حاصل نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32548 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp