مہدی حسن عظیم گلوکار ہی نہیں، عظیم انسان بھی تھے


میں خود کو خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں جس نے موسیقی کی دینا کی عظیم ہستی شہنشاہ غزل مہدی حسن خان صاحب کے ساتھ دو دن گزارے، فن کے حوالے سے ان کا فین تو تھا ہی مگر کبھی زندگی میں خواب بھی نہیں دیکھا کہ اس عظیم ہستی سے ملاقات ہوگی اور اتنی محبت ملے گی وہ بھی ملتان جیسے شہر میں رہتے ہوئے۔

جولائی یا اگست 1998 کا مہینہ تھا، میں نوائے وقت ملتان میں شوبز ڈیسک کا انچارج تھا، ملتان میں جو بھی اہم شخصیت آتی اس کا انٹرویو کر لیتا، ایک دن میرا دوست اور کولیگ الطاف شاہد میرے پاس آیا اور بولا بڑی خبر ہے، خان صاحب ملتان آئے ہوئے ہیں، میں نے کہاکہ کون سے خان صاحب ملتان آگئے ہیں، جواب ملا مہدی حسن خان۔ ۔ ۔

نام سن کر چونک اٹھا، پوچھا کہاں آئے ہیں بتایا کہ ان کی ایک قریبی فیملی کی شادی ہے، خان صاحب پوری فیملی کے ساتھ آئے ہیں، آصف مہدی حسن بھی ساتھ ہیں، میں نے کہا کہ پھرملاقات کیسے ہوگی، الطاف کہنے لگا تم کو علم ہے میرے خان صاحب سے دیرینہ مراسم ہیں چل اٹھ چلیں، ہالیڈے ان میں ٹھہرے ہیں، کاپی پنسل لی اور چل پڑے، ہوٹل اور میرے دفتر کا فاصلہ پانچ منٹ کا تھا

ہوٹل پہنچے تو خان صاحب گاڑی میں بیٹھ رہے تھے، الطاف کو دیکھ کر رک گئے، الطاف نے بتایا میرا یار ہے، آپ کا انٹرویو کرنا ہے، خان صاحب کہنے لگے بھائی ابھی تو شادی والے گھر جا رہا ہوں مگر جلد واپس آجاؤں گا، 11 بجے آجانا، تھوڑی سی گپ شپ کر لیں گے، مجھے جلدی سونا ہوتا ہے، خیر سامنے پریس کلب بیٹھ گئے اور 11 بجے کا انتظار کرنے لگے، ٹھیک 11 بجے ہوٹل گئے، ریسپشن سے پوچھا تو بتایا کہ پندرہ منٹ ہوگئے خان صاحب آگئے ہیں اور کہہ کر گئے ہیں کہ میرے خاص مہمان آئیں گے، ملا دینا، آپ کمرے میں چلے جائیں، یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ اتنی بڑی شخصیت نے اتنا خیال رکھا۔

کمرے میں پہنچے، ان کی دوسری اہلیہ بھی ساتھ تھیں، حال احوال پوچھنے کے بعد انٹرویو شروع کیا، اتنے میں رات کے 12 بج گئے، کہنے لگے بھائی معذرت، آپ لوگوں سے چائے تو پوچھی ہی نہیں، ساتھ بیٹھی اپنی بیگم سے کہا ریسپشن پر فون کریں، ویٹر آ گیا، پوچھا چائے کے ساتھ کیا لیں گے، ہم نے کہا صرف چائے، خان صاحب ویٹر سے کہنے لگے بھائی مجھے تو تھوڑی سی بھوک لگی ہے، کیا کھلا سکتے ہو، ویٹر بولاسنیکس، برگر۔ ۔ ۔ خان صاحب نے کہا کہ بھائی میں تو بیمار آدمی ہوں، یہ چیزیں پرہیز میں شامل ہیں

خان صاحب نے ویٹر سے کہا کہ بیٹا کچھ سوچنے دو، بیٹھ جاؤ مگر ویٹر کھڑا رہا، خان صاحب نے تین بار ویٹر کو بیٹھنے کا کہا مگر وہ نہ بیٹھا، تیسری بار کہنے پر ویٹر بولا۔ سر آپ بڑے لوگ ہیں، ہوٹل کا پروٹوکول ہے آپ کے برابر نہیں بیٹھ سکتا، یہ سن کر خان صاحب محبت بھرے اندازمیں خفا ہوگئے، بولے بیٹا یہ کیا بات کردی، ادھر آؤ بات سنو، وہ قریب آیا تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بیڈ پر بٹھا لیا اور بولے بیٹا بڑا کوئی نہیں، بڑی صرف اللہ کی ذات ہے، یہ اس ذات کے کام ہیں، میرے ڈیوٹی گانے پر لگا دی اور تمھاری ڈیوٹی کھانا کھلانے پر۔ ۔ ۔ یہ کہہ کر خان صاحب نے ویٹر کا ہاتھ پکڑ کر چوما اور کہا بیٹا، انسان سب برابر ہیں

میں یہ سب دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خان صاحب کتنی بڑی شخصیت بھی ہیں، خیر انٹرویو مکمل کیا، آخر میں ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ خان صاحب بڑی خواہش تھی کہ آپ کو لائیو سن سکتا مگر اب آپ نے گانا گانا ہی بند کر دیا ہے، یہ حسرت دل میں ہی رہے گی، میری بات سن کر خان صاحب نے بالکل ایک شہنشاہ کے انداز میں میری طرف ہاتھ اٹھایا اور کہا کہ ”آپ کی یہ خواہش پوری کیے دیتے ہیں“ پھر کہا کہ جس شادی میں آیا ہوں وہاں کل مہندی کی رسم ہے، وہاں پر موسیقی کا بھی پروگرام ہے، آصف مہدی اور دوسرا بیٹا (شاید حسن نام تھا) ’بھی گائیں گے مجھے معلوم ہے کہ سب فرمائش کریں گے اور مجھے ایک گانا گانا ہی پڑے گا۔

خان صاحب نے پھر کہا کہ آپ کل آجائیں، چونگی نمبر 8 کے پاس ملہی فیملی کا گھر ہے، وہاں لائیو مجھے سن کر اپنی خواہش پوری کر لیں، میں نے جواب دیا خان صاحب اچھا نہیں لگتا، آپ کسی کے مہمان ہیں، میں بن بلائے چلا جاؤں، خان صاحب بولے بھائی کیسی بات کر رہے ہو، میں ان کا مہمان اور آپ میرے مہمان ہوں گے، یہ کہہ کر ساتھ والے کمرے سے چھوٹے بیٹے کو بلوایا اور کہا کہ انجم کاظمی کل مہندی کی رسم میں میری دعوت پر آرہے ہیں، یہ میرے مہمان ہیں، آپ نے ان کو فرنٹ سیٹ پر بٹھانا ہے، اس بات پر خان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور خوشی ہوئی کہ کام پکا ہوگیا ہے، واپس دفتر آیا اسی وقت انٹرویو لکھا اور لوکل میں چھاپ دیا۔

اگلے روز پریس کلب میں سجاد جہانیہ ملا، دیکھتے ہی بولے پھر کھڑاک کر دیا، مہدی حسن خان صاحب کا انٹرویو چھاپ کر سب کو مسنگ ڈال دی، میں نے کہا چودھری یہ بات چھوڑ، آج خان صاحب کو لائیو سننے جاؤں گا، یہ سن کر سجاد جہانیہ نے کہا اگر اکیلے گئے تو مجھ سے برا نہیں ہوگا، میں نے کہا چلو ایک مہمان کی تو گنجائش ہوتی ہی ہے، تھوڑی دیر بعد رؤف کلاسرا بھی آ گیا، سجاد نے بتایا کہ آج ہم مہدی حسن خان صاحب کو سننے جا رہے ہیں، یہ سننا تھا کہ وہ تو ٹکی ہوگیا میں بھی جاؤں گا، میں نے جواب حضور ایک بکنگ ہوچکی ہے اب مزید گنجائش نہیں، فیملی فنکشن ہے، رؤف نے کہا جو بھی ہو، مجھے بھی جانا ہے، شام کو اکٹھے ہوئے تو رؤف بھی آٹو پلازہ میں جنگ کے دفتر پہنچ گیا کہ چلیں، میں نے کہا یار کچھ حیا کرو، اچھا نہیں لگتا، خان صاحب نے صرف مجھے مدعو کیا ہے اور میں جنج لے کر چلا جاؤں، مگر وہ نہ مانا بالآخر ہم تینوں فنکشن کے لئے روانہ ہوگئے، جمشید رضوانی سب سن رہا تھا مگر کچھ نہ بولا کیونکہ اس کی شادی ہو چکی تھی۔

ہم فنکشن میں پہنچے، خان صاحب کے بیٹے نے پرتپاک استقبال کیا، آصف مہدی سے ملوایا، پھر فرنٹ سیٹوں پر بٹھا دیا، خان صاحب کے بیٹوں نے خوبصورت پرفارمنس دی، اس دوران سجاد جہانیہ بار بار مجھے کہے کہ خان صاحب نے کہا تھا کہ ایک گانا تو گاؤں گا، میں نے کہا چودھری تجھے یقین کیوں نہیں آتا، میں بھی خان صاحب کو ہی سننے آیا ہوں، روٹی کھان تے نئیں آیا، پھر سجاد بار بار کہے کہ اگر خان صاحب گانا گائیں تو ان سے فرمائش کرنا کہ ”گلوں میں رنگ بھرے“ سنا دیں، انہوں نے ایک گانا گانا ہے، یہ غزل سننا چاہتا ہوں، میں نے کہا چودھری چپ کرجا اور سنتا جا بس۔

آخر وہ وقت آ گیا جس کی دل میں خواہش تھی، خان صاحب کا نام پکار ا گیا، پنڈال میں 500 سے زائد افراد موجود تھے سب نے کھڑے ہوکر ان استقبال کیا، خان صاحب نے ہارمونیم پکڑا، سر نکالا تو سجاد جہانیہ نے زور سے میرا بازو دبا دیا، شاہ جی خان صاحب ”گلوں میں رنگ بھرے“ ہی سنانے لگے ہیں،

گانا شروع ہوتے ماحول پر سحر طاری ہوگیا، یہ وہ زمانہ تھا جب پاپ میوزک پاکستان میں بہت مقبول ہورہا تھا اور بہت سے میوزک گروپ بن چکے تھے مگر بیماری کی حالت میں بھی خان صاحب کی گائیکی ویسی ہی تھی جیسی جوانی میں ہوتی تھی، اس کے بعد لوگوں نے ایک اور گانے کی فرمائش کردی، پھر ایک اور گانے کی فرمائش ہوگئی، تیسرا گانا گانے کے بعد خان صاحب ہارمونیم سے تیزی سے پیچھے ہٹ گئے، اتنے میں میں اٹھا اور خان صاحب کے پاس گیا پہلے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جہاں ایک خواہش پوری کی ہے وہاں دوسری بھی کردیں، بولے دوسری کیا ہے، میں نے کہا کہ خان صاحب گزشتہ ہفتے ہی میری منگنی ہوئی ہے، مجھے آپ کا گانا ”پیار بھرے دو شرمیلے نین“ بہت پسندھے، خوشی کے موقع پرصرف انترہ ہی گا دیں، میری فرمائش سن کر مبارک دی اور میرا گال تپتپاتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹے کی خوشی ہے تو ضرور سناؤں گا، یہ کہہ کر انہوں نے آواز دے کر مائیک منگوایا اور حاضرین سے کہا کہ انجم بہت پیارا بیٹا ہے اس کی خوشی کے لئے ایک گانا گا رہا ہوں اس کے بعد بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خان صاحب کے ہاتھوں کا لمس آج بھی محسوس کرتا ہوں

پھر خان صاحب نے میری طرف دیکھ کر پورا گانا گایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خان صاحب کی اس محبت کو آج بھی یاد کرتا ہوں تو خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں، یہ الگ بات ہے کہ اب میری شادی کو 21 سال ہوگئے ہیں اور خان صاحب کا گانا یوں گاتاہوں۔ پیار بھرے دو زہریلے نین۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اگلے روز ایک سماجی تنظیم نے ان کے اعزاز میں ملتان کے رضا ہال میں تقریب منعقد کررکھی تھی، خان صاحب نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ گانا بالکل نہیں گاؤں گا، تقریب میں میں بھی موجود تھا، تقریب شروع ہوئی، خان صاحب اپنی حسین یادیں لوگوں کو سناتے رہے، سٹیج پرایک ہارمونیم اور طبلہ رکھا ہوا تھا اور وہاں کوئی چادر، قالین یا دری وغیرہ نہیں بچھائی گئی تھی، کمپیئر جو حربے استعمال کرتے ہیں وہی کیا، لوگوں سے تالیاں بجوا دیں کہ تھوڑا سا گانا سنا دیں، خان صاحب نے انکار کر دیا، پھر دوبارہ ہال مداحوں کی تالیوں سے گونج اٹھاتو خان صاحب نے مائیک پکڑا اور بولے کہ میں نے پہلے ہی معذرت کرلی تھی مگر آپ لوگوں کی محبت دیکھ کر مجبور تو ہوا ہوں مگر ایک بات بتا دوں کہ میں نے موسیقی کو ہمیشہ عبادت سمجھ کر گایا ہے، کبھی بغیر وضو گانا نہیں گایا اگر آپ نے گانا سننا تھا تو سٹیج پر کم از کم ایک چادر ہی بچھا دیتے، میں موسیقی کی توہین نہیں کر سکتا اور ننگے سٹیج پر نہیں گاؤں گا

خان صاحب کی یہ بات سن کر ہال میں سناٹا چھا گیا، ہر شخص نیچے نگاہیں کرکے شرمندہ تھا، اتنے میں ہال میں سے ایک شخص اٹھا، اس نے کلف والا سفید سوٹ پہن رکھا تھا، وہ سٹیج پرگیا، بغیر کوئی بات کیے اس نے اپنی سفید قمیض اتاری اور ہارمونیم کے آگے بچھا دی اور خان صاحب کو ہاتھ باندھ کر اشارہ کیا کہ اب سٹیج ننگا نہیں ہے، یہ منظر دیکھ کر ہا ل میں لوگ جذباتی ہوگئے اور کھڑے ہوکر بھرپور تالیاں بجائیں اور پھر خان صاحب اس شخص کے پاس آئے اسے گلے لگا یا، قمیض اس شخص کو دیتے ہوئے یادگار فقرہ کہا۔ ۔ ۔ اس سے زیادہ آپ میری کیا عزت کریں گے اور آج میں آپ کی محبت میں زندگی میں پہلی بار ننگے سٹیج پر گاؤں گا، اتنی دیر میں کوئی ہال کے باہر سے ایک کشن لے آیا اور خان صاحب نے اس پربیٹھ کر ملی نغمہ سنایا۔ ۔ ۔ یہ وطن تمھارا ہے۔ ۔ ۔ تم ہو پاسبان اس کے۔ ۔ ۔

ویٹر اور یہ والا واقعہ دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مہدی حسن عظیم گلوکار ہی نہیں بلکہ ایک عظیم شخصیت بھی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments