ہنوز دلی دور است… لیکن کورونا آن پہنچا


سنہ 1719 میں دہلی کی مغل سلطنت پر محمد نصیر الدین روشن اختر بہادر تخت نشین ہوا جو تاریخ میں اپنی طبیعت کی جولانی اور رنگینی کے سبب محمد شاہ رنگیلا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ محمد شاہ رنگیلا رقص و سرود کی محفلوں کا دلداہ تھا اور شمشیر وسناں اس کے بس کا روگ نہیں تھا۔ محمد شاہ رنگیلا نے اپنی مدت حکومت کا زیادہ تر وقت عیش و نشاط میں گزارا۔ بادشاہ کی عیش پرستی اور بے فکری کے سبب نظم و نسق کی ذمہ داری وزرا کے کندھوں پر تھی جن کی سیاسی چشمک نے ملک کو سیاسی اور اقتصادی بحران سے دوچار کر رکھا تھا۔

محمد شاہ رنگیلا چوبیس گھنٹے نشے میں دھت رہتا تھا اور وہ قانون بنانے اور قانون توڑنے کے خبط میں بھی مبتلا تھا۔ وہ ایک ایسا پارہ صفت انسان تھا جو اچانک کسی شخص کو ہندوستان کا اعلیٰ ترین عہدہ سونپ دیتا تھا اور جب چاہتا وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے جیل بھجوا دیتا تھا۔ وہ وزارتیں تقسیم کرنے اور خلعتیں پیش کرنے کا بھی شوقین تھا۔ وہ روز پانچ نئے لوگوں کو وزیر بناتا تھا اور سو پچاس لوگوں کو شاہی خلعت پیش کرتا تھا لیکن اگلے ہی روز یو ٹرن لے کر یہ وزارتیں اور خلعتیں واپس لے لی جاتی تھیں۔

وہ طوائفوں کے ساتھ دربار میں آتا تھا اور ان کی ٹانگوں، بازوؤں اور پیٹ پر لیٹ کر کاروبار سلطنت چلاتا تھا۔ اس کا حکم تھا کہ ہندوستان کی ہر خوب صورت عورت بادشاہ کی امانت ہے اور جس نے اس امانت میں خیانت کی اس کی گردن مار دی جائے گی۔ اس نے اپنے عزیز ترین گھوڑے کو وزیر مملکت کا سٹیٹس دیا اور یہ گھوڑا شاہی خلعت پہن کر وزرا کے ساتھ بیٹھتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ جب نادر شاہ طوفانی انداز میں کابل اور جلال آباد فتح کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا تو دہلی کے دربار میں محمد شاہ رنگیلا کی توجہ اس فوری خطرے کی طرف دلائی گئی تو اس نے بے توجہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ”ہنوز دلی دور است“

نادر شاہ ایران کی سلطنت افشار کا بانی تھا اور اس کا مکمل نام نادر قلی بیگ تھا، جو حکمران بننے کے بعد نادر شاہ افشار یا نادر شاہ رہ گیا۔ نادر شاہ کے ہندوستان پر حملہ آور ہونے اور دہلی کے قتل عام کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ یہ یلغار مغل امرا کی شامت اعمال کا نتیجہ تھی۔ نادر شاہ خدا کے عذاب کی صورت ہندوستان میں داخل ہوا۔

محمد شاہ رنگیلا کی بے فکری کا یہ عالم تھا کہ جب نادر شاہ لاہور فتح کر چکا تھا وہ تب بھی بالکل نہ گھبرایا اور اس کا جواب یہی تھا ”ہنوز دلی دور است“ ۔ جب محمد شاہ رنگیلا کو نادر شاہی افواج کے کرنال کے میدان میں مجتمع ہونے کی اطلاعات ملیں تو مجبوراً اسے دہلی سے باہر نکلنا پڑا۔ کرنال کا علاقہ دہلی سے تقریباً سو میل دور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ کابل اور قندھار سے آندھی کی طرح چھ سو میل کا فاصلہ طے کر کے کرنال پہنچ گیا مگر محمد شاہ رنگیلا کی فوج سے صرف سو میل کا فاصلہ نہ طے ہو سکا اور جب لڑائی شروع ہوئی تو مغل توپ خانہ ابھی راستے میں تھا۔

نادر شاہ نے دہلی میں تاریخی قتل و غارت گری کی۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہوا۔ بازاروں اور گلیوں میں کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ جانیں تلف ہوئیں۔

اب ذرا موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ کورونا وائرس چین سے شروع ہوا۔ ہمارے عوام نے محمد شاہ رنگیلا کی طرح اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ کورونا یورپ اور امریکہ تک پہنچ گیا اور پاکستانی عوام کی بے توجہی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کورونا کے وجود کو ہی ماننے سے انکار کر دیا۔ اگر کسی کو یقین بھی تھا تو وہ یہی سوچتا تھا کہ یہ وائرس یورپ اور امریکہ تک محدود رہے گا اگر ہم تک پہنچا بھی تو گرمیوں تک پہنچے گا اور اپنی موت آپ مر جائے گا۔ کورونا برصغیر تک آن پہنچا تو عوام تب بھی یہی راگ الاپ رہے تھے کہ ”ہنوز دلی دور است“

حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو اکثریت اسے بلا جواز سمجھتی تھی۔ کسی نے کہا کہ یہ امداد لینے کا بہانہ ہے تو کسی نے ڈراما قرار دیا۔ کورونا وطن عزیز میں پنجے گاڑنے لگا۔ کورونا سے ہونے والی اموات بڑھنے لگیں مگر مجال ہے کہ کوئی گھبرایا ہو۔ کورونا سے مرنے والوں کے بارے میں کہا جانے لگا کہ فلاں تو ہارٹ اٹیک سے مرا ہے، فلاں کو فالج ہو گیا تھا، فلاں کے گردے فیل ہو گئے تھے۔ حالاں کہ کورونا کے اثر سے ہی جسم کے یہ اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کسی کو کوئی جواز نہ سوجھا تو الزام ڈاکٹروں پر لگا دیا کہ مریض تو بالکل ٹھیک تھا ڈاکٹر نے زہر کا انجشن لگا دیا۔

چناں چہ لاک ڈاؤن کھلا تو بے فکری سے خوب گھلنا ملنا شروع کر دیا۔ بازاروں میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ تقریبات جاری ہیں۔ ماسک تک لوگ پہننا گوارا نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص کورونا وائرس کے خطرے کی نشاندہی کرے تو کہتے ہیں ”اجی پاکستان میں تو کورونا ہے ہی نہیں۔ سب ڈرامے بازی ہے۔ جب آئے گا تو دیکھا جائے گا“ یعنی رویہ یہی ہے کہ ”ہنوز دلی دور است“ ان رنگیلے افراد کو علم نہیں کہ نادر شاہی کورونا کرنال کے میدان میں خیمہ زن ہے۔

خدا نہ کرے کہ کورونا وائرس ویسے ہی کشتوں کے پشتے لگا دے جیسے نادر شاہ نے لگائے تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ گھبرانا شروع کر دیں۔ جس طرح امتحان سے پہلے گھبرانے والا طالب علم خوب محنت کرتا ہے، پڑھتا ہے اس ڈر سے کہ وہ امتحان میں فیل نہ ہو جائے اور پھر وہ کامیاب بھی ہو جاتا ہے جب کہ وہ طالب علم جو امتحان سے ڈرتا نہیں، گھبراتا نہیں اور اپنے کھیل کود میں مگن رہتا ہے وہ امتحان کے دن ہاتھ مل رہا ہوتا ہے اور نتیجہ نکلتا ہے تو فیل ہوتا ہے۔

کاش ”ہنوز دلی دور است“ کا رویہ اپنانے والوں تک کوئی یہ خبر پہنچا دے کہ کورونا وائرس سے جنگ شروع ہو چکی ہے۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کی تمام احتیاطی تدابیر اپنائے بغیر اس جنگ میں جیتنا ممکن نہیں۔ خدارا خواب غفلت سے جاگیں اور کورونا وائرس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments