نیم حکیم خطرہ جان


ایک بادشاہ تھا اس نے اپنی سلطنت میں ایک جاہلانہ نظام یہ بنا رکھا تھا کہ جب کوئی بادشاہ مرے تو اگلی صبح جو پہلا شخص محل میں داخل ہو اسے پکڑو اور ملک کا سربراہ بنا دو۔

چنانچہ جب اس بادشاہ کا انتقال ہوا تو محل میں تعزیت میں آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے کھانے پکانے کے انتظامات کیے جانے لگے اور ایک باورچی کو بلایا گیا۔ اگلی صبح سب سے پہلے وہ باورچی محل پہنچ گیا تو چونکہ وہ اگلی صبح سب سے پہلا آنے والا تھا اس لئے اسے نظام کے مطابق تخت پر بادشاہ بنا کر بٹھا دیا گیا۔ ادھر قریب کی سلطنتوں میں پتا چلا کہ اصل بادشاہ مر گیا ہے اور ایک باورچی کو بادشاہ بنا دیا گیا ہے تو انہوں نے حملے کا سوچا۔

ادھر حال یہ کہ بادشاہ باورچی کے پاس کوئی بھی مسئلہ لایا جاتا ان کا جواب ایک ہوتا ”حلوہ پکاؤ“ ۔ کوئی قتل ہوگیا، کہیں ڈاکہ پڑگیا کچھ بھی ہوگیا باورچی کو تو جو آتا تھا وہ وہی حل بتاتا کہ ”حلوہ پکاؤ“ ۔ وزیروں نے اطلاع دی کہ قریبی ممالک حملے کر رہے ہیں ان کی افواج نکل کھڑی ہوئی ہیں ہم کیا کریں جواب ملا ”حلوہ پکاؤ“ ۔ کہا گیا جناب ملک پر حملہ ہوگیا کیا کریں باورچی بادشاہ کا فرمان جاری ہوا حلوہ پکاؤ۔ ۔ وزیر مشیر روتے آئے کہ سرکار غضب ہوگیا سب برباد ہوگیا سب ختم ہوگیا دشمن تو محل تک آپہنچا اب کیا کریں تو بادشاہ سلامت نے فرمایا کہ اچھا ”حلوہ پکاؤ“ اور خود رفو چکر ہوگئے اور اس طرح پورا ملک دشمن کے قبضے میں چلا گیا۔

علم انسان کو جہاں تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لے جاتا ہے وہاں ہی اگر علم آدھا ادھورہ ہو تو انسان ایسی بند گلی میں پہنچ جاتا ہے جہاں سے واپسی مشکل ہے۔ یعنی کہ یہ محاورہ ان لوگوں کے لئے بولا جاتا ہے جو اپنے آپ کو عقل قل کا مالک سمجھتے ہوں لیکن حقیقت میں اناڑی ہوں۔ اگر سیاستدان کو اس کی قابلیت اور وسعت سے بڑھ کر عہدہ مل جائے اور وہ اس کا اہل نہ ہو تو وہ ملک کو بہت سے مسائل سے دوچار کر دے گا۔ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اگر ایک معلم جو انہیں پڑھا رہا ہے اسے اپنے علم پر عبور حاصل نہ ہو تو وہ اپنے آدھے ادھورے علم کی بنا پر ایک پوری نسل تیار کر دے گا جو ایک غلط مائنڈ سیٹ لے کر چل رہی ہوگی۔ اس کی بہترین مثال چند دن پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو ہے، جس میں ایک استاد طالب علموں کو بتا رہا ہے کہ زمین ساکن ہے اور سورج کے گرد گھومتی نہیں ہے اور بچے شش و پنج کا شکار نظر آ رہے ہوتے ہیں۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہر جگہ، ہر محکمے، ہر وزارتوں اور ہر چینل پر نیم حکیم نظر آتے ہیں جبکے جو اہل لوگ ہیں وہ ہجوم میں کہیں گم ہیں۔ اگر ہم اپنے موجودہ حاکم وقت کی بات کریں تو ان کے پاس ہر مسئلے کا ایک حل ہے ’حلوہ پکاؤ‘ یعنی کے امداد مانگو۔ خان صاحب کے پاس عوام کی دہائی لے کر جاؤ کہ ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے، ہم کیا کریں تو فرمان جاری ہوتا ہے کہ امداد مانگو۔

وزراء خان صاحب کے پاس جاتے ہیں کہ ملکی معیشت تنزلی کا شکار ہے، انڈسٹریاں بند ہو رہی ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری بند ہو رہی ہے ہم کیا کریں تو فرمان جاری ہوتا ہے امداد مانگو۔ ملک میں کرونا کی بڑھتی ہوئی صورتحال میں ہر آدمی کی نظر حکومت کی طرف ہے کہ کیا اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن فرمان جاری ہوتا ہے کے ’ٹیلی تھون‘ کرو اور پیسے اکٹھے کرو۔ پچھلے دو سالوں میں حکومت صرف پیسے مانگتی ہوئی نظر آئی کام کرتی ہوئی نہیں، جس کے نتیجے میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار 70 سال میں پہلی بار منفی ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب ملک کو شوکت خانم سمجھ کر چلا رہے ہیں کہ امداد سے کام چل جائے گا۔

اگر وزراء کی بات کریں تو فواد چوہدری کو ہی لے لیجیے۔ فرماتے ہیں مفتی منیب سے زیادہ دین جانتا ہوں۔ چاند کے لئے 10 سالہ قمری کلینڈر بنایا ہے، کسی رویت ہلال کمیٹی اور ان مولویوں کی ضرورت ہی نہیں۔ واہ جناب واہ۔ الیکشن کمیشن آپ کاغذات نامزدگی جمع کرانے گئے تھے تو دعائے قنوت سنا نہیں سکے تھے اور دعویٰ ہے کہ دین زیادہ جانتا ہوں۔ چاند سائنسی بنیادوں پر ضرور دیکھیں مگر یہ ایک خالصتاً دینی مسئلہ ہے، جس پر واضح احادیث میں احکام موجود ہیں۔

اب آپ ریاست مدینہ کا بینر لگا کر تاجدار مدینہ ﷺ کے ہر حکم کو روندنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے۔ درست اقدام ہوتا کہ آپ کلینڈر بھی بناتے اور کہتے کہ اصل مسئلہ رویت کا ہے، چاند نظر آنے کا ہے اس لئے کمیٹیاں بھی باقی رہیں گی۔ فواد چوہدری کے بعد اگر حفیظ شیخ کی بات کریں تو ان کی مہارت کی گواہی تو پیپلز پارٹی کا دور حکومت دے رہا ہے جو کہ عوام کو اچھی طرح یاد ہے۔

بظاہر دیکھا جائے تو ہم بہت سیانے لوگ ہیں، ہم کام کے لیے کوئی ملازم بھی رکھیں گے تو پہلے تین چار سال کا تجربہ مانگیں گے لیکن دین کے معاملے میں ہم ہر کسی کی بات سے قائل ہو جاتے ہیں غرض یہ کہ ان نیم حکیموں نے دین کو بھی نہیں چھوڑا۔ رمضان کے مہینے میں جاوید خامدی، عامر لیاقت حسین، ساحر لودھی، احسن خان ان جیسے لوگ رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر دین سکھانے بیٹھ جاتے ہیں جب کہ اس قسم کے پروگرام اہل علم کو کرنے چاہیے۔

سارا سال ناچ گانے میں مصروف رہنے والوں کو دینی پروگرام دے دیے جاتے ہیں اور یہ سیزنل ملا ہر سال ایکٹو نظر آتے ہیں جو مسلمانوں کا ایمان لوٹنے کے علاوہ اور کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ ہم ڈاکٹر کا کام موچی سے نہیں لیتے مگر دین کی سمجھ فلمی ستاروں سے لینا چاہتے ہیں یہ وہی نیم حکیم ہیں جن سے زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ نیم ساختہ ملا ہماری روحانی موت کے سوداگر ہیں۔ جنہیں دین کے بارے میں چند باتوں کے علاوہ کچھ نہیں پتا اور یہ بات یہاں تک ہی محدود نہیں ہر گلی، ہر محلے اور ہر چوراہے پر یہ خود ساختہ ملا نظر آئیں گے، کبھی بنگالی بابا کے روپ میں، کبھی سوشل سائٹ کے سکالر کے روپ میں، اور کبھی روڈ کنارے بیٹھے ماہر نجوم کی شکل میں۔ آج کل یہ خود ساختہ ماہر گورنر ہاؤس میں پہنچ کر کرونا کے متعلق عوام کو آگاہ کر رہے ہیں جو کہ ماہر ڈاکٹر کو کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments