ڈئیرسٹ بابا منظر امکانی کے نام


ڈئیرسٹ بابا امید ہے کہ آپ بالکل خیریت سے اور سکون سے ہوں گے اور میں بھی یہاں بالکل خیریت سے ہوں۔
ہاں لیکن آنکھوں میں نمی اب بھی ویسے ہی ہے جیسی آپ چھوڑ کر گئے تھے۔ بابا جب بھی میں سوچتی ہوں کہ آپ کے بارے میں کچھ لکھوں ہمیشہ کی طرح ہمت جواب دے جاتی ہے۔

سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا لکھوں اور کیسے لکھوں آپ کی بہادر بیٹی کی ہمت بس یہاں آکر ختم ہوجاتی ہے۔
بابا اتنی بھی بہادر نہیں ہے آپ کی بیٹی کہ اپنے آنسو چھپا کر آپ کو یہ خط لکھ سکے۔

لیکن بابا اس بار میں نے بڑی ہمت کر کے سوچا کہ فادرز ڈے بھی ہے اور آپ کی برسی بھی تو ہے اٹھارہ جون کو تو کیوں نہ آپ کے نام ایک خط لکھ کر بہت ساری باتیں جو دل میں رہ گئیں جو آپ سے ہمیشہ کہنا تھیں مگر وقت اور قسمت نے مہلت نہیں دی وہ کہہ دوں اور بابا آپ کو بھی تو بہت جلدی تھی اپنی بیٹی کو چھوڑ کر جانے کی تھوڑا سا انتظار ہی کرلیتے آپ۔

بابا آپ کو پتہ ہے نا میں آپ کو کتنا مس کرتی ہوں ہر رات آج بھی میں آپ کی تصویر سے پانچ دس منٹ بات کرتی ہوں۔

بابا پلیز ہنسیں مت آپ کو یاد نہیں ہے کیا جب بھی آفس سے لیٹ ہوتے تھے اور آپ کا کام ہی ایسا تھا تو میں ایک کال ضرور کرتی تھی آپ کو اور آپ جتنا بھی بزی ہوں مجھ سے بات کرتے ضرور کرتے تھے۔

بابا میں اپنے دوستوں پر کتنا رعب ڈالتی تھی کہ میرے بابا منظر امکانی ہیں اتنے بڑے صحافی ہیں اتنے بڑے بڑے لوگ میرے بابا کو فون کرتے ہیں ان سے ملنے آتے ہیں اور جب میرے دوست حیرت سے اور متاثر ہو کر دیکھتے تھے تو میں کتنا خوش ہوتی تھی۔

لیکن بابا جب میں نے آپ کو بتایا تھا تو مجھے کبھی نہیں بھولے گا آپ نے کہا تھا انسان کی پہچان اس کا کردار ہوتی ہے اس کا عہدہ اور حیثیت نہیں ہوتی آئندہ ایسے مت کرنا کبھی بھی جو درخت جتنا پھلدار ہوتا ہے وہ اتنا جھکتا ہے اور بابا یہ تو نہ جانے کتنے سالوں تک پتہ چلتا رہا کہ آپ تو کتنے پودوں کے لیے پھلدار درخت تھے۔

بابا آپ کو پتہ ہے جب بھی میں کسی چھوٹی سی پیاری سی ہنستی ہوئی کسی بیٹی کو اس کے باپ کے لاڈ اٹھاتے دیکھتی ہوں چھوٹی چھوٹی ضدیں کرتے دیکھتی ہوں تو مجھے آپ یاد آ جاتے ہیں اور پھر مجھے اپنی معصوم ضدیں یاد آ جاتیں ہیں یاد آ جاتا ہے مجھے بخار میں بھی رات بارہ بجے آپ گود میں اٹھا کر باہر بہلانے لے جاتے تھے۔ میں آپ کے علاوہ کسی کی بات سنتی بھی نہیں تھی امی سے زیادہ آپ سے قریب تھی۔ جب بھی مجھے وہ ڈانٹتی تھیں تو آپ مجھے ان کی ڈانٹ سے ہمیشہ بچا لیتے تھے۔

جب میری اسکول وین کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور مجھے بہت زیادہ چوٹیں لگیں تھیں تو جب میں ہوش میں آئی تھی میں نے پانی مانگا تھا اور ڈاکٹرز مجھے اس وقت پانی نہیں دے سکتے تھے تو آپ رکے نہیں تھے وہاں کہ کہیں میں آپ کو دیکھ کر ضد کروں اور آپ مجھے پانی پلا دیں۔ اتنا پیار اور اتنا لاڈ کرتے تھے آپ مجھ سے بابا اور کبھی مجھے ہلکی سی بھی چوٹ لگتی تھی تو آپ تڑپ جاتے تھے اور بابا آپ کے جانے کے بعد تو کیا کچھ نہیں سہا۔

بابا یاد ہے جب میں میتھس کے ٹیسٹ میں اچھے مارکس نہیں لاتی تھی تو آپ مجھے خود پڑھاتے تھے۔
بابا اور میں کتنا حیران ہوتی تھی کہ میرے بابا کو کیا نہیں پتہ ہے چاہے کتابیں ہوں چاہے فوٹوگرافی کرنا ہو چاہے اسپورٹس ہو چاہے میوزک ہو چاہے کوئی بھی موضوع ہو آپ کو سب پتہ ہوتا تھا۔

بابا جب امی کہتی تھیں منظر اس کو مت بگاڑو بیٹی ہے تو آپ بس مسکرا دیتے تھے اور بابا آپ کی مسکراہٹ بھی تو کتنی خوبصورت تھی بالکل آپ کی شخصیت کی طرح اور بابا آپ یہ تو بس آپ کی شخصیت کا ہی کرشمہ ہو سکتا ہے آج بھی جب میں کہیں جاتی ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ منظر کی بیٹی ہے۔

بابا آپ کی لائبریری بھی تو آپ کی شخصیت کی طرح شاندار اور پراسرار تھی میں جب بھی وہاں قدم رکھتی تھی تو مجھے لگتا تھا کہ میں ایلس ان ونڈر لینڈ میں آ گئی ہوں۔
بابا آپ اپنی کتابوں سے کتنی محبت کرتے تھے نہ کبھی کسی کتاب پر کوئی گرد نہیں آنے دیتے تھے کسی کتاب کا کوئی صفحہ بھی نہیں موڑتے تھے۔
بابا آپ کو یاد ہے جب میں نے اسکول کے ڈیبیٹ کمپیٹیشن میں حصہ لیا تھا اور آپ کو میرے پرنسپل نے چیف گیسٹ بلایا تھا۔

آپ اپنے سب کام چھوڑ کر آئے تھے اور جب جیتا کوئی اور تھا تو میں بعد میں آپ سے کتنا لڑی تھی کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں جیتنے دیا تو مجھے آج بھی یاد ہے آپ نے کہا تھا کہ جیتنا ضروری نہیں ہوتا مقابلہ کرنا ضروری ہوتا ہے تو ایسے تھے بابا آپ۔

بابا یاد ہے آپ کو آپ میرے ساتھ کرکٹ میچز بھی دیکھتے تھے ایک ایک بات بتاتے تھے یہ مجھے کرکٹ دیکھنے کا شوق آپ سے ہی ہوا اور جب پاکستان پہلی بار اچانک سے ورلڈ کپ جیتا تھا ہم نے کتنا انجوائے کیا تھا۔

آپ میری برتھ ڈے پر بھی مجھے سرپرائز گفٹ دیتے تھے ہر لمحہ ہمارے ساتھ جیتے تھے کیونکہ آپ کو جانا جو تھا۔

بابا آپ نے مجھے ایک پارکر پین دیا تھا اور کہا تھا یہ میری امانت ہے تمہارے پاس اس کو جب استعمال کرنا جب تم لکھنا سیکھ جاؤ۔ بابا وہ پارکر پین اتنے سالوں کے بعد آپ کی امانت ہے میرے پاس اس سے کبھی نہیں لکھا کیونکہ آپ جیسا تو لکھ ہی نہیں سکتی۔

بابا پتہ ہے جب بھی کسی پیاری سی بیٹی کو اس کے بابا آئس کریم دلاتے ہوئے دیکھتی ہوں یاد آتا ہے آپ بھی مجھے امی سے چھپ کر آئس کریم دلاتے تھے کیونکہ مرا گلا جو جلدی جلدی خراب ہوتا تھا۔ بہت نازک تھی آپ کی بیٹی کیونکہ اس کو پتہ تھا اس کے بابا جو ہیں اس کے سب نخرے اٹھانے کے لیے لیکن بابا پتہ ہے جب آپ اتنا اچانک سے ہم کو چھوڑ کر گئے تب پتہ چلا کہ سر پر آسمان نہ ہو پیر کے نیچے زمین نہ ہو کیسا لگتا ہے۔ بابا اللہ سے ہمیشہ میری دعا ہے کہ کسی بیٹی کا اتنا پیار کرنے والا باپ اس کو ایسے اچانک چھوڑ کر کبھی نہ جائے یتیمی کیا ہوتی ہے اس کا دکھ مجھ سے زیادہ کسے سمجھ آئے گا۔ کسی بیٹی کے سر پر اس کے باپ کا سایہ نہ تو یہ دنیا کیا سلوک کرتی ہے رشتے کیسے رنگ بدلتے ہیں مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔

بابا آپ کے جانے سے سچ مچ آپ کی بیٹی بہادر بن گئی بننا ہی پڑا کیونکہ آپ جو نہیں تھے۔ بابا آپ کبھی میری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے تھے میں رو رو کر اپنی ہر بات آپ سے منوا لیتی تھی۔

لیکن بابا اب میری آنکھوں کے آنسو دیکھنے والے تو ہیں لیکن ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔
آپ ہمیشہ مجھے کہا کرتے تھے تم تو میری بہادر بیٹی ہو میں ہمیشہ تم کو مسکراتا دیکھنا چاہتا ہوں کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔

تو بابا آپ کی بیٹی اس فادرز ڈے پر بہت ہمت کر کے آپ کو ہیپی فادرز ڈے کہہ رہی ہے۔
لیکن اس کی آنکھوں میں نمی ویسے ہی جیسی آپ چھوڑ کر گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments