سی پیک اور بلوچ و پشتون قوم پرست


\"mubashir\"گزری کل وزیراعظم پاکستان، میاں محمد نواز شریف صاحب نے گوارد پورٹ کا باضابطہ افتتاح کر دیا، اور یوں عوامی جمہوریہ چین کا پہلا بحری جہاز، سامان کے سینکڑوں کنٹینرز لے کر اپنی منزل، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی جانب روانہ ہو گیا۔ کل چند اک دوستوں سے فون پر گفتگو ہوئی، اور سوشل میڈیا پر بھی کچھ تھریڈز بنے۔ ساری کمیونیکیشن کی جمع تفریق یہ رہی کہ:

پٹواری: چھلانگیں مارتے رہے؛

جیالے: زرداری صاحب کی تاقیامت وژن کی تعریف کرتے رہے؛

انصافی: (حسبِ معمول) گالم گلوچ کو تنقید سمجھ کر فرماتے رہے؛

پشتون و بلوچ نسل پرست: ماتم کناں رہے؛

مجھ جیسے: حیران و محظوظ رہے!

بلوچستان میں رہنے والے، بالخصوص بلوچ دوست، اک عجب سے ردعمل کی کیفیت میں مسلسل مبتلا ہیں۔ اور میں انہیں اس حال میں 1997 سے دیکھ رہا ہوں کہ جب سے اس صوبہ کے معاملات پر الف بے پڑھنا شروع کی تھی۔ میں تب ویگنوں میں دھکے کھاتا تھا راولپنڈی اور اسلام آباد میں اور دل میں اک سرخ انقلاب کی جوت بھی جلائے رکھتا تھا۔ اب گاڑی چلاتا ہوں اپنی، اور سرخ انقلاب کو سلام کر چکا۔ ویسے بھی بقول چرچل کہ جو عمر کی دوسری دہائی میں سوشلسٹ نہیں، اس کے پاس دل نہیں اور جو عمر کی تیسری دہائی میں بھی سوشلسٹ ہے، اس کے پاس دماغ نہیں۔ دل جاتا ہے تو جائے، صاحبو، دماغ رہنا چاہئیے!

میں ویگن سے سائیکل، موٹرسائیکل، پرانی گاڑی، لیز کی گاڑی سے اپنی موجودہ گاڑی تک آن پہنچا، میرے بلوچ یار ابھی تک اپنی نسل پرستی کی بنیاد پر وہی ردعمل کا ماتم کر رہے ہیں کہ جس میں انہوں نے اپنی کئی نسلیں، مجھے کہنے دیجیے، کہ برباد کر ڈالی ہیں۔ کل بھی اپنی گفتگو میں اور آج بھی اس ٹوٹے پھوٹے خیال میں کہنا یہی ہے کہ سی-پیک سے بلوچستان کے رہنے والے بہترین فوائد کشید کر سکتے ہیں، مگر اس کے لئے اپنی قابلیت کی بنیاد پر مواقع تلاش اور تخلیق کرنے کی شدید جدوجہد کرنا ہوگی۔ ریاستیں اور معاشرے، منہ میں کچھ نہیں ڈالتے، کہ یہ ویسے بھی سرمایہ دارانہ نظام کی نفی ہے، اور میں فری مارکیٹس کے حق میں ہوں کہ جس میں جتنی قابلیت اور محنت کی لگن ہوتی ہے، مارکیٹ اسے کہیں زیادہ نوازتی بھی ہے۔ سویڈش ثقافت میں اک کہاوت ہے کہ خدا ہر پرندے کو کھانے کے لیے کیڑا فراہم کرتا ہے، مگر یہ کیڑا اس پرندے کے گھونسلے میں نہیں ڈالتا۔

رزق کا یہ ”کیڑا“ تو میرے سیاسی ایمان کے لازم جزو، بلوچستان کے گھونسلے میں موجود ہے، مگر ردعمل کی کیفیت میں یہ رزق، مجھ جیسے غریب گھروں کے بچوں کی زندگی میں آنے کی بجائے انہی چند لوگوں کی جیبوں میں ڈلتا رہے گا کہ جو اپنی نسل پرستانہ سیاست کے پروپیگنڈے کی بنیاد پر کئی دہائیوں سے اک عجب انقلابی ملغوبہ بیچ رہے ہیں کہ جس میں عام گھروں کے بچے 99.9% کی شرح سے مارے گئے، مارے جا رہے ہیں، اور یہی عام گھروں کے بچے مار بھی رہے ہیں۔ ریاست کی مسلسل حماقتیں اور کج روی اپنی جگہ حقیقت ہے، مگر یہ عجب مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ بلوچستان میں مارکسی سیاست کے سرخیل، سردار رہے!

بات ختم کرونگا کہ کل اپنے اک بلوچ دوست، جو حسنی ہیں، سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے یہ طعنہ مارا کہ ”بات پیسے کی ہے تو بحث کا فائدہ کوئی نہیں۔“ میں نے جواب دیا کہ بحث پیسے کی ہو، یا کسی بھی قسم کے، بےفائدہ اور بےکار ہی ہوتی ہے۔ اور اگر اس میں وہی مردانہ قبائلی معاشرے کی دین ”غیرت“ لے کر آنا ہے تو جناب، نیٹو کنٹینرز کے تقریبا تمام ٹرانسپورٹرز پشتون اور بلوچ تھے، جنہوں نے اربوں کمائے، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے کنٹینرز کی حفاظت کے لیے متشدد ملائیت کو ”ہدیاتِ مبارکہ“ بھی پیش کیے جاتے رہے۔ یہ کام بھی ہوتا رہا کہ متشدد ملائیت سے درخواست کرکے اپنے کنٹینرز کو جلوایا اور تباہ بھی کروایا جاتا رہا کہ بتلایا جا سکے کہ وہ کتنا مشکل کام کر رہے ہیں۔ نیٹو کنٹینرز کی ٹرانسپورٹیشن کے کام میں غیرت نیند کرتی رہی، اور مجھ سے غریب سرخ انقلاب لاتے رہے، مرتے رہے، مارتے رہے۔

بلوچ اور پشتون، خود پر اور پاکستان پر مہربانی کریں کہ اس حصہ میں تعمیری طریقہ سے شامل ہونے کی بھرپور کوشش کریں۔ یہ کام طعنوں اور تیزابی ردعمل سے ممکن نہ ہوگا۔ طعنوں اور تیزابی ردعمل سے ابھی تک کچھ ممکن ہو پایا ہے تو میرے علم میں اضافہ کر دیجیے۔ ان کی شمولیت کا سب سے پہلا اور بڑا فائدہ، مجھے یا میرے قصبے ملکوال کو نہیں، انہیں ہی ہوگا۔ ان کی مرضی ہے، کہ یہ کام اب رُکنے کا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments