ہم عجمی ہیں یا عربی؟
ایک زمانہ تھا جب عربی بولنے والے غیر عربی دوسری زبانیں بولنے والوں کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے، کون جانے شاید اب بھی کہتے ہوں، گرچہ ان سب کو اور خاص طور پر اہل سعود کی زیرعملداری عرب خطے کی قیادت کو جو کچھ بھی سننا پڑتا تھا وہ اسی گونگوں کے اشاروں والی زبان انگریزی میں سن کر نہ صرف یہ کہ سمجھنا پڑتا ہے بلکہ اس پر بیشتر اوقات من و عن عمل بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ انہیں لاکھ عجمی کہہ لیں انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہیں عجمی کا مطلب گونگا آتا ہی نہیں لیکن اگر کہیں کوئی عرب رہنما خدانخواستہ امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن جو خیر سے خود یہودی ہیں یعنی عربوں کے عبرانی بولنے والے رضائی بھائیوں کی اولادوں یا کم از کم پیروکاروں میں سے، یا سیاہ فام صدر باراک حسین اوبامہ، جو نسلاً عربی بولنے والے افریقی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ”مرد“ کی اولاد ہیں، کے سامنے، امریکیوں کو Dumb nation کہہ دے تو اس کے بعد اس رہنما کی جو بائیڈن، باراک حسین اوبامہ اور مغربی میڈیا جو گت بنائے گا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، پھر یہ کہ امریکی Dumb nation کا مطلب ”گونگی قوم“ کی ساتھ ساتھ احمق، گاؤدی، بے مغز قوم زیادہ لے گی۔
مگر ہماری قم کا کیا ہے اسے عرب رہنما Dumb nation نہ بھی کہیں تو بھی وہ گونگوں میں گونگی اور گاودیوں میں گاؤدی قوم ہی رہے گی کیونکہ اس نے نہ امریکہ کے آگے چوں چرا کرنی ہے نہ سعودی عرب کے سامنے زبان کھولنی ہے۔ قوم کی نمائندگی ظاہر ہے قیادت اور حکومت ہی کیا کرتی ہے اس لیے ہم قوم کو ”مطعون“ نہیں کر رہے بلکہ قیادت کے گاؤدی پن کا ذکر کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے کا سبب ایک اطلاع ہے کہ وزیر اعظم پاکستان الحاج میاں نواز شریف مدظلّہ نیم عرب و نصف الباکستانی نے ایک مسودہ قانون پر دستخط کر دیے ہیں جس کے مطابق اللہ کو انگریزی میں ”گاڈ“ نہیں لکھا جائےگا۔ نماز کو صلوٰۃ ہی لکھا اوربولا جائے گا۔ روزے کو انگریزی میں ”صوم“ ہی لکھیں گے اور قوم کو بھی روزے کو صوم کہنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔
اگر یہ خبر درست ہے تو انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اہل عرب ہیں یا اہل عجم۔ ہم بلا شبہ مصطفوی ہیں لیکن ہمارا عرب سے نہ ثقافتی تعلق ہے نہ لسانی، نہ جغرافیائی اور نہ ہی معاشرتی۔ ایک مثال سن لیجیے، میں ایران کے اس علاقے میں جہاں سنی العقیدہ عربوں کی آبادی نوّے فیصد سے زیادہ ہے، بطور ڈاکٹر تعینات تھا۔ ایک ادھیڑ عمر عرب اپنی بارہ تیرہ سال کی بچی کو دکھانے لایا۔ بچی فی الواقعی حسین تھی۔ وہاں دوچار اور لوگ بھی موجود تھے۔ میں نے کہا آپ کی بچی بہت خوبصورت ہے۔ اس نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ، باوجود اس کے کہ وہ جانتا تھا کہ میں متاہل ہوں، مجھ سے پوچھا تھا، ”کیا اسے اپنی عورت بناؤ گے؟“۔ میرا جو حال ہوا وہ میں جانتا ہوں مگر باپ بیٹی دونوں میری خجالت پر ہنس رہے تھے۔ کیا ہماری ثقافت اور معاشرت اس طرح کے رویے کی اجازت دیتی ہے۔ یقیناً نہیں۔
پہلے ضیا الحق نے خدا حافظ کو اللہ حافظ میں بدلا اب ”ضیائیے“ ہماری زبان کے بارے میں بھی طے کریں گے اور وہ بھی قانوناً کہ ہمیں کس کے لیے کون سا لفظ استعمال کرنا ہوگا۔ کیا خدا کہنے سے معاذا للہ، اللہ کا اللہ پن مجروح ہوتا ہے؟ خالق ارض و سماء کو جس نام کے ساتھ بھی پکارو وہ سمجھ جاتا ہے کہ اسی کو پکارا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الفاظ کے ساتھ عقیدت بندھی ہوتی ہے۔ ہم فہم کے کبوتر کو عقیدت کے ٹوکرے تلے بند کر دینے کے شوقین ہیں۔ مثال سن لیجیے لفظ اذان کا لغوی مطلب ہے ”پکارنا“ ہم نے اذان کو الوہی اہمیت دے ڈالی۔ معاملہ یہ ہے کہ اذان کی پکار نماز کے لیے بلانے سے منسوب ہے چنانچہ ہم اسے محض پکارا جانا نہیں کہتے۔
عیسائیت سے بھی لوگ اسی لیے کھنچے تھے کہ ایک زمانے تک پادریوں نے انجیل کو عبرانی، یونانی، کلدانی اور بعد میں لاطینی زبان سے باندھے رکھا تھا۔ باقی سب کو امام کے پیچھے اللہ اکبر کہنا ہوتا تھا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے جرمن مذہب شناس مارٹن لوتھر کا جس نے ”پروٹسٹنٹ“ یعنی احتجاجی تحریک چلائی تاکہ انجیل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سمجھانے کی خاطر نہ صرف یہ کہ ان کی اپنی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے بلکہ عبادات میں بھی وہ ان کی ہی زبانوں میں پڑھی جانی چاہیے۔ اگر انجیل عبرانی میں ہی پڑھنا پڑھتی تو آج عیسائیت عنقا ہو چکی ہوتی۔ نشاۃ ثانیہ کی روشن خیال تحریک کے بعد کوئی طوطے کی طرح مناجات پڑھنا نہیں چاہتا تھا انہیں اس کے معانی و مطالب اور ان پر سمجھ کر عمل درآمد کرنے سے غرض تھی۔ اس لیے آج نہ صرف پروٹسٹنٹ بلکہ ان کے جانی مخالف کیتھولک اور قدامت پرست عیسائی پادری بھی گرجا گھروں میں اپنی زبانوں میں مناجات پڑھتے ہیں اور اسی وجہ سے آج عیسائیت کسی نہ کسی شکل میں باقی ہے۔
ہمیں ہر بات کو عقیدت کی دم کے ساتھ باندھ کر باقی سب نیک اعمال سے جان نہیں چھڑا لینی چاہیے۔ ہماری زبان عموماً چار زبانوں سے مل کر بنی ہے لیکن اب اس میں دوسری زبانوں بشمول انگریزی اور فرانسیسی و دیگر زبانوں کے لفظ بھی شامل ہو چکے ہیں جیسے سبوتاژ یا رپورتاژ فرانسیسی زبان کے الفاظ ہیں چنانچہ ہمیں اپنی زبان کے لفظوں پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے کوئی بھی صلوٰۃ کو نماز اور صوم کو روزہ نہیں پڑھے گا لیکن روزمرہ کی زبان میں اور بقول کسے Translation اور Transliteration کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا قانون ماننے سے انکار کرنا چاہیے جو باعلم دنیا میں ہمارا تمسخر اڑانے کا موجب بنے۔
ہم محمدؐ عربی کی امّت ضرور ہیں لیکن ہماری عرب کے ساتھ اس نسبت کے علاوہ کوئی اور نسبت نہیں ہے۔ اگر عربی کو قومی زبان قرار دینا ہے تو پوری طرح قرار دیں تاکہ ہم قرآن کو بھی سمجھ کر اس پر عمل کریں اور اگر نہ کریں تو شرمسار تو رہیں۔ بصورت دیگر ہم عجمی ہیں اور ہمیں اپنے عجمی ہونے پر اسی طرح فخر کرنا چاہیے جس طرح اہل فارس کرتے رہے اور کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہمیں دجلہ و فرات و نیل کی تہذیبوں کی طرح گنگا جمنی اور سندھ کی تہذیب پر بھی اتنا ہی فخر ہے۔ کم از کم میں تو ایسا قانون ماننے سے صاف انکار کرتا ہوں جو میری زبان مجھ سے چھینتا ہو۔ آپ سب اپنے اپنے طور پر جو روش چاہیں اختیار کریں۔
- محبت اور نفسیات - 13/02/2024
- پھر کیا کرنا چاہیے؟ - 14/01/2024
- احمد سلیم مرتے تھوڑا نہ ہیں - 12/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).