کورونا کا حکیمی اور عمرانی علاج


مجھے پورا یقین تھا کہ یہ لوگ جو گھروں پر تراویح نمازوں کی باجماعت ادائیگی کر کے اللہ کو اپنی پر خلوص عبادت کے ذریعے راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ ان کی ضرور سنے گا۔

عشق میں ڈوب کر بے خطر یوم توبہ کو اللہ سے گڑگڑا کر اپنی خطاؤں کی معافی مانگنا آخر ایسی کون سے خطا ہے کہ جو رب ان کی اجتماعی توبہ اور عبادات قبول نہ کرے۔ نمرود کی آگ ٹھنڈی ہوئی تھی، کرونا بھی بھسم ہو گا۔

مولا کا غم منانے والوں نے اکیس رمضان سے پہلے ہی ہمیشہ کی طرح روایتی طور پر لیکن کہیں زیادہ شدت اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ماتم داری شروع کر دی تھی۔ اکیس رمضان کو اس بار حکومتی احکامات اور اقدامات کے ساتھ ساتھ تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ دیا اور مولا کے غم میں ایک دوسرے سے نتھی ہو کر خوب گریہ و ماتم کیا۔ مجھے لگتا تھا مولا ان کا گریہ قبول کریں گے اور کوئی معجزہ ہو جائے گا۔ اور ملعون کرونا ان کا بال بیکا نہ کر سکے گا۔

ہمارے چیف جسٹس کا دل عمران خان کی طرح عوام کی امنگوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ انہوں نے عوام کی ہمدرد حکومت کو حکم دیا، حالانکہ محض یہ رسمی ہی تھا حکومت جیسے انتظار میں بیٹھی تھی، اس نے عوام کو ناصرف عید کی شاپنگ کی اجازت دی بلکہ با جماعت اور عید کی نمازوں کی ادائیگی کے لیے بھی مسجدیں کھول دیں اور انہیں پیار سے سمجھا دیا کہ جو بتایا اس پر ضرور عمل کرنا۔

اللہ نیتوں کے حال بہتر جانتا ہے، قوی خیال تھا کہ بچوں کی فرمائشوں کو پورا کرتے والدین اور مال فروخت کرتے دکانداروں سے کرونا ضرور صرف نظر کرے گا۔ مذکورہ سرگرمیوں کے نتائج اب بھی حکومت کی توقع کے مطابق نہیں نکلے تو عید کے بعد لاک ڈاؤن تقریباً ختم کر دیا گیا۔ لیکن عید ختم ہوتے ہی کرونا کے ایسے وار ہوئے کہ توبہ اور اذانیں، سازشوں کی تکرار سب بھول گئیں۔

لاکھوں مریض ایک صرف ایک کرونا کے اثر میں ہیں۔ سب ناقص حکومتی اقدامات کی تسبیح اور ہاسپٹل کی خراب صورت حال پر ماتم کر رہے ہیں۔ کروڑوں گھروں میں متاثر ہیں لیکن وزیراعظم کو اطمینان ہے کہ تعداد ان کی توقع سے کم ہے۔

اب اس لاک ڈاؤن کے بعد کے ثمرات بس چند دن میں ملنے ہی والے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ نتائج ہمارے وزیراعظم کی توقع کے مطابق ہوں۔ کو رونا سے بچ گئے تو اپنے آپ کے سوا کسی پر بھروسا مت کرنا، تمہارے سوا کوئی تمہارا مخلص نہیں ہو سکتا۔ زندگی تمہاری ہے اس کی حفاظت بھی تمہیں کرنی ہے۔

چلتے چلتے ایک لطیفہ سن لیں۔

ایک صاحب، حکیم کے پاس لوز موشن کی شکایت لے کر آئے۔ حکیم نے انہیں دوا دی، اگلی بار وہ صاحب بہت بری حالت میں آئے اور کہا کہ دوا سے حالت تو اور خراب ہو گئی۔ حکیم نے کہا۔ شکر کرو، پیٹ صاف ہو رہا ہے۔ دوبارہ دوا دی، اگلے روز بیمار کا بیٹا آیا کہ موشن نے ابا جی کی حالت پتلی کر دی ہے، خدا کے لیے دوا بدل دیں۔ حکیم نے کہا شکر کرو جتنے موشن آئیں گے اتنا پیٹ صاف ہو گا، پریشانی کی بات نہیں۔

اگلے دن بیٹا آیا، جناب موشن نہیں رکے، وہ تو مر گئے۔
حکیم : شکر کرو مر گئے ورنہ ابھی اور آتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments