حسن نثار صاحب کے چند کالے قول


حسن نثار صاحب اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے بہت معروف ہیں۔ ان کے کاٹ دار جملے اور الفاظ اپنے اندر گہری معنویت رکھتے ہیں۔ کالے قول کے نام سے ان کی ایک کتاب بھی منظرعام پر آچکی ہے۔ حسن صاحب کے کالےاقوال سے انتخاب۔

جسے اپنے حسن پہ ناز ہے وہ مد ھو بالا اور مارلن منرو کی برسی ضرور منایا کرے۔

مہنگائی مصنوعی طریقہ سے بڑھائی تو جا سکتی ہے، گھٹائی نہیں جا سکتی۔

میں اس بات پر حیران ہوں کہ انسان، انسانوں کی موجودگی میں بھی نہ صرف زندہ بچ گئے بلکہ ان کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔

ایک طرف ’’بلو کا گھر‘‘ ہے دوسری طرف ’’چھنو کی آنکھ‘‘ تو سمجھ نہیں آ رہی کس طرف جائوں۔

’’ستاروں پہ کمند‘‘ نہ ڈال سکے تو بھنگڑا، لڈی، دھمال اور گند ڈالنے میں مصروف ہو گئے۔ جو یہ کچھ نہ کر سکے وہ ووٹ ڈالنے لگے۔

حکومت اتنا بھی نہیں جانتی کہ بیہودہ سکرپٹ پر بنائی گئی فلم صرف ’’سپیشل ایفکٹس‘‘ کے زور پر نہیں چل سکتی۔

مہنگائی اک خاص حد سے بڑھ جائے تو قیمتی ترین چیزیں بہت سستی ہو جاتی ہیں۔

پچھتاوے پیچھے چھوڑ کے آ۔

ایٹمی جنگ میں فتح صرف ایٹم بم کی ہوگی۔

انسانی فطرت ایک سی، صرف عادتیں مختلف ہوتی ہیں جیسے ہاتھ ایک سے لیکن فنگر پرنٹس مختلف، خون کا رنگ ایک سا لیکن گروپ مختلف۔

صرف ایک آدمی پر مشتمل ’’کمیٹی‘‘ ہی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔

بچہ مشورہ نہیں ذاتی مثال مانتا ہے۔

لیبارٹری عظیم ترین حجرہ ہے۔

ردعمل نہیں….صرف ’’عمل‘‘ فیصلہ کن ہوتا ہے۔

ہر وہ بٹوہ خالی ہے جس میں کوئی تصویر نہیں۔

کبھی کبھار مفت مشورہ، مہنگے ترین مشورہ سے بہتر ہوتا ہے۔

اپنے خراٹے کسی کو سنائی نہیں دیتے۔

لامحدود کی بھی حدود ہوتی ہیں۔

اعتماد….اہلیت کے بعد کی بات ہے۔

گونگا جتنی بھی محنت کر لے، گلوکار نہیں بن سکتا۔

جس درخت کی جڑیں ننگی ہو جائیں، اسے کوئی موسم سوکھنے سے نہیں بچا سکتا۔

خوبصورت گیت، اندھیرے میں بھی خوبصورت ہوتا ہے۔

جنت اک ایسا مقام ہے جو صرف ان کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو خود کو اس کیلئے تیار کرتے ہیں۔

زیبرے اپنی لکیریں اور انسان اپنی خصلت نہیں چھپا سکتا۔

اپنے ہاتھوں سے لگائے درخت کا پھل زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔

اینٹ سے اینٹ بجانا آسان، اینٹ پر اینٹ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

آزاد ہونے کیلئے ’’آزادی ‘‘ضروری نہیں، حضرت بلال حبشیؓ غلام ہوتے ہوئے بھی ’’آزاد‘‘ ہی تھے اور ہم میں سے بیشتر آزاد ہوتے ہوئے بھی غلام ہی ہیں۔

 ہر خودکشی کرنے والے کا کوئی نہ کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے۔

ناکامی کو کامیابی کی پہلی قسط سمجھو۔

کامیابی کے دروازہ پر بھی لکھا ہوتا ہے۔ “PUSH”

رینگنے کے بعد ہی چلنا آتا ہے۔

کہیں انسان روٹی کھاتا ہے کہیں روٹی انسان کھا جاتی ہے۔

ضروری نہیں کہ ہر سچی بات اچھی بھی ہو۔

کبھی کبھی فی البدیہہ تقریر بغیر بریکوں کی گاڑی ثابت ہوتی ہے۔

کچھ لوگوں کو صرف شہرت سے دلچسپی ہوتی ہے، وجہ شہرت سے نہیں۔

ٹوٹے ہوئے ستار پر ملہار ناممکن ہے۔

خود کو پانے کے لئے …..خود کو کھو دینا بہت ضروری ہے۔

سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔

جلد بازی میں آہستگی سے کام لو (خاص طور پر حکومت کیلئے)

تمہارا اپنا ہاتھ ہی تمہارا بہترین ساتھ ہے۔

عوام گھاس کھائیں گے تو جانور کہاں جائیں گے۔

مُکے کے ساتھ مصافحہ ممکن نہیں۔

ہر بادل میں برسات نہیں ہوتی۔…..

ہر ’’سرخی‘‘ سچی نہیں ہو سکتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments