ہم اپنا قبرستان ساتھ لئے پھرتے ہیں


گزشتہ دن قبرستان میں گزارا، بابا کی آخری آرام گاہ پر کتبہ لگایا اور پھول چڑھائے۔ میری زندگی میں پہلا چانس تھا سارا دن قبرستان میں گزارنا۔

یقین کریں زندگی میں پہلی بار ایک عجیب سا سکون محسوس کیا۔ ۔ ۔ میں نے کبھی اپنی نجی مصروفیت پبلک نہیں کی لیکن اس سکون کی روداد لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں اور میرا یہ نظریہ ہر گز نہیں کہ ہمدردی سمیٹوں یا کوئی شوخی بگھاروں اور نہ یہ باور کرانا مقصود ہے کہ میں کوئی پرہیز گار انسان ہوں مجھے میرے رب کی قسم میں ایک گنہ گار انسان ہوں۔

کبھی کبھی کتنا مشکل ہوجاتا ہے لکھنا؟ کیسے لکھیں؟ کیا لکھیں؟ کس کے لیے لکھیں؟ الفاظ یوں دور بھاگتے ہیں جیسے کوئی ہم کوڑھی ہوں۔ الفاظ کا ایک تقدس ہوتا ہے۔ یوں ہی تو نہیں ہوتا ناں کہ بس قلم اٹھایا اور صفحات کا پیٹ بھر دیا۔ لیکن کبھی کبھی الٹ بھی ہوجاتا ہے کہ لفظ قطار باندھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور لکھاری سے التجا کرتے ہیں کہ لکھ ڈالو۔ پر لکھاری بھی کیا لکھے! کیسے لکھے اور کس کے لیے لکھے! اندر کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کفالت نہ کریں تو ایسے میں سوائے خاموشی کے کچھ چارہ نہیں رہتا۔

بس خاموشی۔ اندر کا قبرستان اجڑا ہوا، بے چراغ اور گلوں سے محروم ہوتا ہے۔ ہم سب اپنا قبرستان خود اٹھائے سرگرداں رہتے ہیں۔ جو ہمارے پاؤں میں چکر پھیریوں کی طرح لپٹا رہتا ہے گویا ہم اپنی قبر ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ جہاں موت نے دبوچا وہیں پیوند خاک ہوگئے، اندر کی قبر ظاہر ہوگئی۔ لیکن کس قدر سادہ ہیں کہ، سمجھتے ہیں سب کچھ ٹھیک ہے۔ کوئی نہیں، کبھی نہیں، کچھ بھی تو ایسا نہیں ہوگا۔ اتنے منصوبے، اتنے پروگرام بناتے ہیں اور بھول جاتے ہیں اندر کی قبر پکار رہی ہے : مجھے بھرنا ہے۔ مجھے بھرنا ہے تو نے اپنے ناز و نعم سے پالے ہوئے جسم سے میری کوکھ بھرنی ہے۔ کب آئے گا تو۔ آخر کب۔ میں کتنا انتظار کروں تیرا۔ کب آئے گا تو!

بابا جی کے ساتھ جب ہم قبرستان میں جایا کرتے تھے بابا بہت رویا کرتے تھے کیونکہ راز وہیں کھلتا ہے اگر آپ کبوتر کی طرح آنکھیں نہ پھیریں سامنے اپنے پیاروں کی آرام گاہیں ہوتی ہیں اور ان کی ذات سے جڑی یادیں اور باتیں ہوتی ہیں پھر احساس ہوتا ہے کہ ایک دن ہم نے بھی ادھر ابدی نیند سونے آنا ہے۔ قبرستان کو ہم سنسان جگہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک ایسے شہر خموشاں کا نام ہے، جس میں آپ کے پیاروں کی دنیا آباد ہے فرق صرف اتنا ہے، اس شہر کے مکین صرف آپ کو سنتے ہیں بولتے نہیں ہیں۔ ۔ ۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہیں کہ اک دن ہم نے بھی مرنا ہے۔

میں قبرستان میں گھومتا رہا قبروں پر موجود تختیاں پڑھتا رہا، اس صدی میں مرنے والوں کے کتبے دیکھے تو انکشاف ہوا کہ کسی کی عمر بھی ستر یا اسی سال سے زیادہ نہیں ملی زیادہ سے زیادہ پچاس ساٹھ۔ ۔ ۔ تو کیا ہے یہ زندگی بس محض ساٹھ ستر سال وہ بھی اگر آپ جی پائیں۔

ہم قبرستان کو بہت پراسرار مقام سمجھتے ہیں، ایک حد تک تو یہ درست ہے لیکن قبرستان ایسی جگہ نہیں جس سے خائف ہوا جائے۔ قبرستان تو بہت امن و آشتی کی جگہ ہے، مقام غور فکر ہے، دنیا کی حقیقت اسی جگہ تو دیکھنے کو ملتی ہے، عزیز رشتے داروں کا تعلق یہیں تو کھلتا ہے کہ وہ جو مرنے پر بین کر رہے تھے، مرنے کے بعد آپ کو کتنا یاد رکھتے ہیں۔ قبرستان تو خود ایک دنیا ہے، اس دنیا کے باسی کسی سے کچھ بھی تو طلب نہیں کرتے، کوئی پانی چھڑک دے تب بھی، نہ چھڑکے تو بھی، کوئی پھول رکھ دے اور نہ رکھے تب بھی، عجب دنیا ہے۔

سچ پوچھیے تو مجھے قبرستان سے زیادہ کوئی اور مقام نہیں بھایا، اب آپ اسے میری قنوطیت مت سمجھ لیجیے گا، نہیں بالکل نہیں، اگر آپ ایسا سمجھیں گے تو یہ دعویٰ بھی کریں گے کہ آپ مجھے جان گئے ہیں، چاہے تھوڑا سا ہی، تو دست بستہ عرض گزار ہوں کہ جناب! میں خود اب تک یہ دعویٰ نہیں کر سکا کہ میں خود کو جان گیا ہوں تو آپ کیسے یہ کر سکتے ہیں؟

کبھی ہم نے اپنے اندر کی قبر کی وحشت ناک چیخیں سنی ہیں۔ نہیں، میں نے تو نہیں سنیں۔ پر نہ سننے سے کیا ہوتا ہے! ہونی ہوکر رہتی ہے۔ سنی ان سنی کردو، کچھ نہیں ہوتا۔ ہونی ہوکر رہتی ہے۔ لیکن ایسا بھی کتنا عجیب سا لگتا ہے ناں کہ سب انسانوں کی قبریں ایک ساتھ پکارنا شروع ہوجائیں۔ آؤ، آؤ! بال کھولے بین کرتی ہوئی موت لوگوں کو ایک ساتھ پکار رہی ہو۔ اگر ہم اپنے کان کھول لیتے تو ہمیں بھی سنائی دیتا۔ پر کیسے سنائی دیتا! اتنی ڈرا دینے والی آواز آخر ہم کیوں سنیں! چلیں ہم سن بھی لیتے تو کیا کرتے؟ کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں کر سکتے تھے ہم۔ موت سے نہیں بھاگ سکتے ہم۔ کہاں بھاگ سکتے ہیں۔

زندگی پر موت کا پہرا لگا ہوا ہے۔ ہم سو جاتے ہیں وہ جاگتی رہتی ہے۔ موت کا پہرا۔ ۔ ۔ کوئی بچ کر نہیں نکل سکتا اس سے۔ چاہے کوئی بھی ہو۔ زردار ہو یا بے زر، توانا ہو یا کم زور، عقل کا پتلا ہو یا مجھ جیسا مجسم حماقت، زاہد، عابد ہو یا خدا بے زار، مجلسی ہو یا مردم بے زار، بچہ ہو، معصوم ہو، کلی ہو یا پھول ہو، کچھ بھی نہیں۔ ۔ ۔ موت کچھ بھی نہیں دیکھتی۔ اپنا کام کرتی ہے۔ بروقت موت۔ ۔ ۔ نہ ایک لمحہ آگے نہ پیچھے۔ مہلت عمل پوری ہوئی تو بس دیر نہیں لگاتی۔ لے اڑتی ہے اپنے شکار کو۔ ۔ ۔ کچھ نہیں دیکھتی۔ یہ بھی نہیں کہ اتنی محنت کے بعد گھر بنایا ہے۔ ابھی تو بیٹا باہر سے آیا ہے۔ بیٹی جوان ہوگئی ہے۔ کتنے کام باقی ہیں۔ ابھی تو آگے جینا ہے۔ نئے کچھ خواب دیکھے ہیں انھیں تعبیر کرنا ہے۔

ہم ایک ضابطے کے پابند ہیں۔ من چاہی زندگی نہیں گزار سکتے۔ کیسی زندگی۔ بس چند گھڑیاں چند لمحے۔ یہی ہے زندگی! اس کو سمجھ لیا ہے ہم نے زندگی۔ سب مایا ہے، سب مایا۔ ۔ ۔ کچھ نہیں بچے گا۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔ بس رہے نام اللہ کا۔ نت نئے مصائب، ناگہانی آفات ہمیں تنبیہ کرتی رہتی ہیں، سنبھل جاؤ۔ اب بھی وقت ہے، اپنا رخ ٹھیک کرو۔ اپنا رہن سہن سدھارو۔ انسانوں پر ظلم بند کرو۔ ان کی تحقیر مت کرو۔ خدا بننے کی کوشش بند کرو۔ نہیں بن سکتے تم خدا۔ کبھی نہیں، کبھی بھی نہیں۔ تم مجبورمحض ہو، یہی رہو گے۔ اپنی اوقات میں رہو۔

اپنی ہستی پہچانو۔ رب سے جنگ کرنے چلے ہو۔ کوئی نہیں جیت سکا اس سے، کوئی بھی نہیں۔ اب بھی وقت ہے، درتوبہ کھلا ہے۔ اقرار کرلو اپنی بے بسی کا۔ اپنی اکڑی گردن جھکادو، اس کے آگے سجدہ ریز ہوجاؤ۔ عاجزی اختیار کرو۔ دور نہیں ہے اس کی خوش نودی، وہ تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، اور کتنا قرب چاہیے تمہیں۔ وہی ہے گھاؤ بھرنے والا۔ بڑے سے بڑے حادثے کو رحمتوں میں بدل دینے والا۔ عبرت پکڑو۔ زمینی خداؤں سے انکار کردو۔

خالق حقیقی کے بن جاؤ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ سب کا بھلا سب کی خیر۔ ہم اس طرح کیوں نہیں سوچتے کہ رب تعالٰی نے زندگی کی سب سے بڑی محافظ موت کو بنایا ہے، واہ جی واہ، موت زندگی کی حفاظت کرنے پر مامور کی گئی ہے اور وہ ایسے کہ جب تک وقت نہیں آیا کوئی آپ کی زندگی نہیں چھین سکتا، چھین ہی نہیں سکتا کہ اس پر موت کا پہراجو لگا ہوا ہے، کب آئے گی، کہاں آئے گی، کیسے حالات میں آئے گی۔

یہ سب کچھ لکھا جاچکا ہے اور وہ دن مقرر کر دیا گیا ہے تو اب آپ سکون سے رہیں کہ کوئی بھی آپ کا جیون نہیں چھین سکتا اور جب سمے آ گیا تو کوئی بھی، جی کوئی بھی اس سمے کو واپس دھکیل نہیں سکتا۔ موت کبھی کسی کو کسی کے حوالے نہیں کرتی، کبھی نہیں بس خود حفاظت کرتی ہے اس سمے تک جو لکھا جاچکا ہے تو بس شانت رہیے، کبھی کبھی قبرستان جایا کیجیے اور وہ کرنے کی کوشش کیجیے جو مجھے بابا نے بتایا اور سکھایا اور آپ کے بابا نے۔

جان من با کمال رعنائی
خود تماشا و خود تماشائی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments