تین ہزار کی جعلی دوا اور ابا کی مزدا 929


کراچی کا علاقہ صدر ایک عہد میں کراچی کا مرکز ہوا کرتا تھا مگر رفتہ رفتہ بہت سے اہم دفاتر اور ادارے وہاں سے دیگر علاقہ جات منتقل ہو گئے جس کے نتیجے میں وہاں پر بڑی تعداد میں بڑے بڑے آفس کمپلیکس (جیسے پینوراما سینٹر) ویران ہونے لگے۔ اب صدر میں بڑی تعداد میں مخفی امراض کی جعلی دوائیں بیچنے والے اور دیگر قسم کے فراڈیوں کے علاوہ لنڈے کے سامان کے ٹھیلے کثرت سے نظر آتے ہیں۔ ہمارے بڑے برادر کے ایک دوست بڑی آسانی سے فراڈیوں کا شکار بن جایا کرتے تھے۔

ایک روز وہ صدر گئے تو وہاں پر سڑک پر ایک شخص نے ان کو بتایا کہ ان کی آنکھوں میں حلقے پڑ گئے ہیں۔ ہمارے برادر کے دوست اس بات سے تشویش کا شکار ہو گئے۔ اس افسوسناک مژدہ کے سنانے کے بعد اس انجان شخص نے ان کو بتایا کہ وہ ان کو ایک حکیم کے پاس لے جا سکتا ہے جو اس مرض کی دوا دے گا۔ اس نے اسی طرح کی اور چکنی چپڑی باتیں کر کے مذکور صاحب کو شیشے میں اتارا اور ایک ویران سی عمارت کی مخدوش دکان میں لے گیا جہاں بغیر قیمت پہلے بتائے دوا کوٹ دی گئی اور پھر ان سے 3 ہزار روپے طلب کیے گئے۔

انہوں نے اتنی رقم پر اعتراض کیا تو یہاں لانے والا اور نیم حکم (بلکہ جعلی حکیم) ان پر چڑھ دوڑا اور بولا کہ ”اب دوا کٹوا لی تو لینے سے انکار کر رہے ہو؟“ خیربیچارے کو دوائی لینی پڑی۔ چار پانچ جڑی بوٹیوں کے اس مرکب کو وہ گھر لائے اور بڑی احتیاط سے فرج میں رکھ دیا۔ ہم جب ان کے گھر گئے تو وہ یہ واقعہ سنا کر کہنے لگے کہ اب ان کو وہ دوائی کھانی بھی پڑے گی۔ یہ بات سن کر ہم لوگوں نے حیرت سے دریافت کیا کہ ایسا کیوں؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر انہوں نے وہ دوا نہیں کھائی تو تین ہزار ضائع ہو جائیں گے۔

بہت مرتبہ انسانوں کی جمیع اکثریت بالکل اوپر مذکور صاحب کی طرح ہی کرتی ہے۔ یعنی اپنی ایک غلطی کو نبھانے کے لئے اس سے بھی بڑی غلطیاں کی جاتی ہیں۔ یہ دراصل ایک نفسیاتی معاملہ ہے۔ انسان اپنی غلطی کو درست ثابت کرنے کے لئے اسی غلطی میں پڑا رہتا ہے۔ اسی کو دہراتا جاتا ہے اور زیادہ اسی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ میرے والد صاحب مرحوم نے 1997 میں ایک پرانی ’مزدا 929‘ گاڑی خریدی جس میں ڈیزل انجن تھا۔ یہ گاڑی ایکسیڈنٹ شدہ تھی اور اس کو ایک مکینک نے پورا بنا کر میرے والد کو بیچا تھا۔

وہ گاڑی واقعی ’گاڑی‘ یعنی ’گڑی ہوئی‘ ثابت ہوئی۔ وہ چلتی کم تھی اور کھڑی زیادہ رہتی تھی۔ کافی دھکا مارا جائے تو وہ چلتی اور اگر کہیں روکی جائے تو پھر دوبارہ چلنے کا نام نہ لیتی۔ جتنے کی وہ خریدی گئی تھی اس کے تقریباً برابر ہی پیسے اس کی بار بار مرمت پر بھی خرچ ہو گئے لیکن وہ ٹھیک نہ ہو سکی مگر والد صاحب مرحوم اس کو ٹھیک کرانے کی ہی فکر میں رہے۔ بالآخر انہوں نے اپنی تاریخی غلطی کو تسلیم کیا اور اس گاڑی کو فروخت کر کے سفید ہاتھی سے جان چھڑا لی۔

اصل مشکل وہی لمحہ ہوتا ہے کہ جب انسان اپنی غلطی سے جان چھڑاتا ہے۔ اس میں ایک رکاوٹ تو انسان کی انا ہوتی ہے اور دوسر ی رکاوٹ وہ سرمایہ یا محنت جو کہ اس چیز یا منصوبے پر خرچ ہوئی ہو۔ لوگ نقصان اٹھا اٹھا کر بھی اپنے کاروبار سے چپکے رہتے ہیں۔ پریشانیوں کے باوجود بھی اپنی نوکریوں سے چپکے رہتے ہیں اور یوں سوچتے رہتے ہیں کہ مشکلات تو آزمائشیں ہیں اوراسکے بعد آسانیاں ظاہر ہوں گی۔ اور اگر انہوں نے اپنی راہ بدلی تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ ہمت ہار گئے۔

حالانکہ حقیقت اس خیال کے برعکس ہوتی ہے۔ ویسے نہ تو دنیا میں اب تک کامیابی کا کوئی مستند یا متفق علیہ فارمولا ہے نہ ہی ناکامی کا مگر یہ بات طے ہے کہ کامیاب اشخاص میں ایک نوع کی لچک پائی جاتی ہے۔ ان کے خیالات، ارادوں، افعال میں ریورس گیئر بھی ہوتا ہے اور وہ ہر مرتبہ پیچھے ہٹنے کو پسپائی ہی نہیں تصور کر لیتے۔

بات اگرصرف 3000 کی دوائی یا لاکھ روپے کی گاڑی کی ہوتی تو انسان پھر بھی برداشت کر لیتا مگر اس خوفناک روش نے ہزاروں لوگوں کی جان بھی لے لی ہے۔ اس کی مثال ’گیانا‘ میں 900 امریکیوں کی ایک دیوانے پادری جم جونز کی سرکردگی میں خودکشی ہے۔ جم جونز نامی شخص پیپلز ٹیمپل نامی چرچ کا بانی تھا۔ لوگ اولاً اس کے معتقد بنے اور پھر اس نرگسیت کے مریض، خود پرست شخص کے چنگل میں پھنستے ہی چلے گئے۔ جب امریکا میں اس کے بعض غیر قانونی افعال پر تحقیقات شروع ہوئیں تو یہ ویسٹ انڈیز میں گیانا چلا آیا اور اپنے معتقدین کو کسی جنت ارضی کے خواب دکھا کروہاں اپنے ساتھ لے گیا۔

لوگ رفتہ رفتہ جب کسی شخص یا نظریے کے لئے قربانیاں دینے لگتے ہیں تو ان کے لئے اس شخص یا نظریے سے جان چھڑانا ناممکن ہونے لگتا ہے۔ ہر عمل کی ایک کشش ثقل ہوتی ہے۔ خیر یہاں آ کر لوگوں کو پتہ چلا کہ وہ تو دراصل جم جونز کے غلام ہی بن گئے ہیں اور ان کی کالونی دراصل ایک نوع کا بیگار کیمپ یا قید خانہ ہے۔ اس دوران جب امریکا میں ان افراد کے اہل خانہ نے اس معاملے پر شور مچایا تو ایک امریکی سینیٹر تحقیق کرنے گیانا کی اس کالونی میں آیا جو جیمس ٹاؤن کہلاتی تھی۔

یہاں اس نے لوگوں سے ملاقات کی تو چند افراد نے ہمت کر کے سینیٹر کو پرچیاں پکڑا دیں کہ وہ یہاں نہیں رہنا چاہتے اور ان کو زبردستی رکھا جا رہا ہے۔ سینیٹر نے یہ بات کھل کر بولی اور ایسے تمام افراد کو اپنے ساتھ لے کر جانے لگا جو وہاں رہنے کے خواہاں نہ تھے۔ جب وہ کالونی کے قریب ہی بنے رن وے پر پہنچا تو اس پر اور ان ’غداروں‘ پر ایک مسلح شخص نے (جو جم جونز کے حکم پر وہاں چھپا تھا) فائرنگ کر دی جس میں سینیٹر، ایک صحافی اور چند دیگر افراد ہلاک ہو گئے۔

باقی لوگ ادھر ادھر بھاگے، دوسری جانب جم جونز کو احساس ہوا کہ امریکی سینیٹر کو یوں مار کر وہ جی تو نہیں سکے گا تو اس نے فوراً بڑے بڑے برتنوں میں سائنائڈ زہر گھلوایا اور خود اور اپنے معتقدین کو جبراً پلوا دیا۔ یہ ہوا انجام ایک برے نظریے سے چپکے رہنے کا۔ کیا ان 900 معتقدین کو اس سے قبل کبھی جم جونز کے رویے میں دیوانگی محسوس نہ ہوئی ہو گی؟ یا وہ ہر شے کو یہ ہی سوچ کر نظر انداز کرتے ہی چلے گئے کہ انہوں نے جب ایک نظریہ چن لیا تو وہ اب اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ یا یہ کہ انہوں نے اپنے نظرئیے کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ افسوس انسان اپنی ایک غلطی کو غلطی نہ ماننے کے لئے ہزار غلطیاں کو گزرتا ہے۔ افسوس انسان اپنے تھوڑے سے نقصان کو نقصان نہ ماننے کے لئے اس سے دگنا، تگنا نقصان کر بیٹھتا ہے مگر پھر بھی نہیں سمجھتا۔ غلطی کی کشش ثقل واقعی بڑی قوی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments