علامہ اقبال یونیورسٹی کا پرچہ اور انگریزی کا جنازہ


\"sana-batool\"

زبان کی بنیادی طور پہ چار مہارتیں ہیں۔ سننا، بولنا، پڑھنا اور لکھنا۔ سننا اور بولنا پیدائشی عمل ہے جو انسان قدرتی طور پہ ماحول سے سیکھتا ہے لیکن پڑھنے اور لکھنے کے لیے باقاعدہ مشق کرنا پڑتی ہے۔ ماہر ین لسانیات نے زبان کی مہارتوں کو مختلف مدارج اور اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ اور حالات کے پیش نظر محتلف قسم کے انداز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ ادارے باقاعدہ طور پہ روز مرہ زبان کے استعمال کے پیش نظر اپنے طلباء کو تیار کرتے ہیں۔ جو آج کے دور کی ضرورت بھی ہے اور اہم بھی ہے علامہ اقبال اوپن یونیوسٹی ایسا ہی ادارہ ہے جو ان طلبا کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے جو باقاعدہ رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ اس ضمن میں انگریزی زبان کی تدریس کے لیے فنکشنل انگلش یعنی روز مرہ کی استعمال کی زبان کو میٹرک کی سطح سے شامل کیا گیا ہے۔ اس میں طلبا کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے زبان کی چاروں مہارتوں اور اقسام کو درجہ بدرجہ شامل کیا گیا ہے۔ تحریر کی بنیادی طور پہ چار اقسام ہوتی ہیں پھر انہیں مزید ذیلی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

بنیادی اقسام میں تشریحی تحریر، بیانیہ تحریر، ترغیبی تحریر اور روایت بیانی شامل ہیں۔
تشریحی تحریر جو کہ کسی واقعہ کو حقائق، عمل کوسلسلہ وار بیان کرتی ہے۔
بیانیہ تحریر جس میں کسی فرد، عمارت، جگہ یا تصویر کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔
ترغیبی تحریر جس میں دلائل اور منطق سے بات کی جاتی ہے اور قارئین کے نقطہ نظر کو جاننے کے لیے سوالات کیے جاتے ہیں۔
روایت بیانی جس میں کہانیوں کی مختلف اقسام اور روایات شامل ہیں۔

گزشتہ دنوں میٹرک کے طلبا کے لیے ترتیب دیے گئے ایک پرچے کا سوال نظر سے گذرا جس میں بڑی بہن کی شخصیت کو بیان کرنے کا کہا گیا تھا جو بیانیہ تحریر کا جائزہ ہے۔ سوال میں عمر، خال و خد، عادات، رویے اور ظاہری شکل و صورت کے متعلق پوچھا گیا تھا۔ سوال عام تھا محض طلباء کی صلاحیتوں کا امتحان مقصود تھا لیکن بہت خاص بن گیا اتنا خاص کہ جس ٹی وی چینل کا کوئی نام بھی ٹھیک سے نہیں جانتا تھا اس نے اس پہ پورا پروگرام کر ڈالا اور ثابت کیا دنیا کے مسئلے مسائل ایک طرف یہ سوال ایک طرف۔ تہذب اڑ گئی لوگ غیر مہذب ہو گئے، انتظامیہ اندھی تھی کہ یہ سوال پوچھا گیا۔ اینکر صاحب شدید صدمے کے عالم میں تھے اور پھر جو ایسا سچا جذبہ ہو وہ تو خوشبو کی طرح پھیلتا یے سو پھیل گیا۔ صاحب لوگ تیر تلوار لیے میدان میں اتر آئے تیری بہن، میری بہن۔ ہوتے کون ہو پوچھنے والے؟

بات یہ نہیں ک سوال غلط تھا بات یہ ہے کہ پوچھا غلط جگہ پہ گیا۔ اس معاشرے میں جہاں مرد عورت کے ساتھ چلنا توہین سمجھتا ہو، جہاں وہ بغیر ماں کے پیدا ہوا ہو، جہاں بہن کا سرے سے وجود ہی نہ ہو، جہاں بیوی ایک کومڈیٹی سے زیادہ حثیت ہی نہ رکھتی ہو وہاں بہن کی انفرادی شخصیت کیونکر ہو سکتی ہے۔ وہ ایک نیم پلیٹ ہے جس پہ اس کہ ماں جائی ہونے کا ٹیگ لگا ہے۔ اس کی عادات و خصائل کیونکر اپنے ہو سکتے ہیں وہ تو بس عزتوں کا بوجھ اٹھائے ایک گونگی بہری، جذبات و عقل سے عاری انسان ہے۔

سوال عام ہے اتنا عام کہ واویلا کرنے والے اپنے دور تعلیم میں اس کا جواب ہزار بار دے چکے ہوں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ یاداشت میں محفوظ نہیں ہو گا۔ کیوں کہ وہ جواب عقل سے لکھا گیا ہو گا نہ ہی کسی تخلیقی صلاحیت کے زیر اثر۔ وہ ایک رٹا ہے جو ہر بچے نے لگایا ہےاور اب تک لگاتا چلا آرہا ہے۔ مائی بیسٹ ٹیچر، مائی مدر، مائی فادر یا مائی سلیف کی صورت میں۔ اس میں یہ لکھا جاتا ہے کہ ان کی صحت کیسی ہے، قد کتنا ہے، رنگت کیا ہے، بالوں کا رنگ کیا ہے، عادات کیا ہے، پسند نا پسند غرض ہر شخصی حوالہ شامل ہوتا ہے۔

کوئی بھی بچہ جب وہ سکول میں داخل ہوتا ہے تو ابتدائی طور پہ اس کی دلچسپی قائم رکھنے کے لیے اور معاشرے کو متعارف کروانے کے لیے ابتدا خاندان سے کی جاتی ہے وہ اپنے بارے میں، خاندان کے بارے میں، بہن بھائیوں کے بارے میں خیالات کا اظہار کرنا سیکھتا ہے۔ یہ نفسیاتی طور پہ اسے دلچسپی کی تحریک دیتا ہے۔ اپنے بارے میں اپنے دوست کے بارے میں، استاد، والد یا والدہ کے بارے میں مضامین لکھنا اظہار کا بنیادی عمل ہے۔ اب ان میں سے کوئی بھی نامور ہستی نہیں ہوتا تو ظاہر ہے اس کے ظاہری حلیے، رکھ رکھاو، عادات اور مشاغل کی ہی بات کی جاتی ہے لیکن اعتراض نہیں ہوتا۔ نہ ہی آج تک ہوا تھا لیکن اچانک نان ایشو کو ایشو بنایا گیا۔ طلبا کو سوچ کا جو چھوٹا سا کینوس مہیا کیا گیا تھا کہ وہ رٹے کی بجائے خود سوچ کے کچھ لکھیں اسے بحث و مباحثے میں اتنا الجھا دیا گیا کہ بے چارہ ادارہ بھی انگلیاں دانتوں میں دبا کے رہ گیا کہ کوئی ایسے بھی سوچ سکتا ہے۔ کیا بہن خاندان کا حصہ نہیں ہوتی؟ کیا اس کی اپنی کوئی شخصیت نہیں ہوتی؟ کیا اس کا وجود اس قابل نہیں کہ اسے اتنی اہمیت دی جائے کہ اس میں دلچسپی لی جائے؟ اسے جانا جائے اس کیرائے پسند نا پسند کو اہمیت دی جائے؟اگر ایسا ہے تو واقعی ہی اس سوال پہ معزرت ہونا چاہیے اور ساتھ ہی اس معاشرے میں عورت ہونے پہ بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments