بابا گورونانک جی کا جنم دن مبارک


نوٹ: سکھ مذہبی روایت کے مطابق بابا گورونانک  کا جنم دن کارتیک پورن ماشی کے دن  پڑتا ہے یعنی ہندی سال کے کارتیک مہینے کے پورے چاند کی رات۔ اس  سال \"aasem-bakhshi\"یہ تاریخ آج کے دن یعنی14 نومبر  بروز سوموار تھی۔اس مناسبت سے دو سال   قبل کی ڈائری کا ایک صفحہ آپ کے پیشِ خدمت ہے جب ہم نے مع اہل و عیال بچوں کو سکھ  روایت سے متعارف کروانے کے لئے گردوارہ ننکانہ صاحب کی سیر کی۔

’پانچ وقت کی نماز پڑھو بچو، رسول اللہ نے نماز کی بے حد تاکید کی ہے۔ جب بابا فرید پانچ سال کے بچے تھے تو ان کی والدہ نے انہیں عادت ڈالنے کے لئے دو نمازوں سے شروع کیا اور وہ چادر کے نیچے شکر چھپا دیا کرتی تھیں، ایک دن وہ بھول گئیں اور بابا فرید نے ہر روز کی طرح وہاں دیکھا تو شکر موجود تھی۔ دیکھو اللہ والے کیسے کیسے معجزے رکھتے ہیں۔ رب ہر بندے کے دل میں بستا ہے، چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو۔ اگر بندے کا دل دکھایا تو پھر چاہے جو بھی عبادت کرو اللہ ناراض ہو جائے گا۔ رسول اللہ نے کہا تھا کہ آخری وقت میں بے حیائی عام ہو جائے گی تو میری بچیو اپنے سروں پر چادریں رکھا کرو۔ ہاں شاباش! دیکھا میری اُس بیٹی نے چادر اوپر کر لی، شاباش بچی جیتی رہ۔ بس اب سب بچوں نے وعدہ کرنا ہے کہ نمازیں نہیں چھوڑنی اور پانچ وقت ۔ یہ ماں جی سامنے بیٹھی ہیں، ان سے پوچھو ہمارے وقت میں تو کتنی دور سے پانی لانا پڑتا تھا۔ اب تو ہر کمرے کے ساتھ غسل خانہ ہے، جگہ جگہ ٹونٹیاں لگی ہیں، اب کیا مشکل؟ وضو کرنا بھی آسان، اللہ کی آسانیاں ہیں۔ اب تو نماز چھوڑنے کی یہ وجہ بھی نہیں کہ وضو کرنا مشکل ہے۔ بس ہر بندے کی عزت، ہر بندے سے پیار، شرم حیا اور نماز۔‘‘

گردوارے کے مہتمم دیال سنگھ، جو یونائیٹد بینک ننکانہ صاحب کی ایک برانچ میں مینیجر کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں، گرو نانک کے جنم استھان والے کمرے میں بیٹھے پنجابی میں بولتے چلے جا رہے تھے، سامنے ہری چادر میں رکھے کچھ تبرکات وغیرہ موجود تھے جن میں سونے کی تلوار، کرپان وغیرہ تھے۔ وہاں سے نکلے تو میں نے کہا گرنتھ صاحب کی زیارت ہی کروا دیجئے،اور یہ کہتے ہی کہتے ہم سب ایک ملحقہ کمرے میں داخل ہو گئے جہاں اونچے چبوترے پر ایک خاتون بڑے ذوق و \"guruji\"شوق اور انہماک سے گرنتھ صاحب کی ایک بڑی سی جلد پڑھ رہی تھیں۔ گردوارے کا وہ حصہ گھوم پھر چکے تو انہوں نے اجازت چاہی تو میں نے کہا دیال سنگھ جی اگر پانچ منٹ مزید ہوں تو ان بچوں کو گرونانک کی وفات کا وہ مشہور واقعہ سنا دیجئے جس میں ان کے دفنانے اور جلانے کے مسئلے پر دو گروپ بن گئے تھے، اور وہ والا قصہ بھی جس میں پھنئیر سانپ نے گرو جی پر سایہ کر دیا تھا۔ بچوں نے بڑے مزے سے دونوں قصے سنے اور پھر ہم نے دیال سنگھ جی کو الوداع کہا۔ چلتے چلتے انہوں نے کہا بھائیو بہنو اگر کوئی بات غلط کر دی ہو تو معاف کر دینا، اور ہاں بچو نماز کا وعدہ یاد رکھنا۔

 پھر جب ہم اکیلے ہوئے تو وہ بحث تو چھڑنا ہی تھی جو جدید مسلم نفسیات میں شاید ایک بدنما بیماری کی سی کیفیت رکھتی ہے، یعنی یہ سوال کہ آیا دیال سنگھ جی کا آخری مقام جنت ہے یا دوزخ؟ ضروری نہیں کہ یہ سوال ہمیشہ  اسی طرح زیرِ بحث آئے کیوں کہ اس کے زیرِ بحث آنے کی متعدد صورتیں ہیں۔ مثلاً اس قسم کا کوئی جملہ کہ ’’دیال سنگھ کو ہی دیکھ لیں ہر بات اچھے مسلمانوں والی، بس کلمہ پڑھ لے تو’ہم ‘ سے بہتر مسلمان۔‘‘ میرا کزن کہنے لگا ننکانہ صاحب میں مشہور ہے کہ سکھ دکاندار جھوٹ نہیں بولتے۔ شاید امی تھیں یا نانی اماں، بہرحال کسی نے مجھے کہا کہ انہوں نے سب اچھی باتیں کیں لیکن سچا مذہب تو صرف اسلام ہی ہے۔

میں نے کہا مذہب کی سچائی کا کیا مطلب ہے؟ کوئی کیسے جان سکتا ہے کونسا مذہب سچا ہے؟ دنیا میں کئی مذاہب ہیں، کتنے لوگ ہیں جو ان سب کی بنیادی تعلیمات اور صحیفوں پر ایک طائرانہ نگاہ ہی ڈال سکیں اور اس کے بعد ان کے سچے یا جھوٹے ہونے کا فیصلہ سنا سکیں؟ وہ جو پانچ سال کا سکھ بچہ ابھی ہم نے اپنے والدین کے ساتھ دیکھا اس پر آپ کس طرح اسلام کی سچائی واضح کر سکتے ہیں جب وہ بیس سال کا ہو؟ کیا آپ دیال سنگھ جی سے بحث کرنا چاہتے ہیں کہ سکھ مذہب سچا ہے یا اسلام جب کہ ان کا موضوع ہی آپ کو حیا اور نماز کی تلقین ہے؟یاد ہے آپ تو پچھلے ہفتے اس میلاد سے اٹھ آئی تھیں جب ان میزبان خاتون نے کہا تھا کہ اب آپ سب خاموشی سے کھڑے ہو جائیں اور درود و سلام پڑھیں کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب اس محفل میں موجود ہیں!آپ کو عجیب لگا تو آپ محفل چھوڑ آئیں لیکن بحث

\"Peopleطلب بات تو یہ بھی ہے کہ کونسا اسلام سچا ہے؟ آپ جس مذہب میں بھی کودیں گے ایک دنیا آباد ہے۔اس لئے سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اپنی بساط میں ایک عام آدمی کے لئے حق کی تلاش زیادہ اہم ہے یا جس کو آپ حق سمجھتے ہیں اس پر قائم رہنا ؟

میرا کزن کہنے لگا ویسے اتنے کھلے دل کے بھی نہیں ہیں یہ لوگ۔ ننکانہ صاحب میں سکھوں اور مسلمانوں کی بڑی مشہور لڑائی ہوئی تھی جب ایک سکھ عورت نے ایک مسلمان آدمی کی محبت میں اسلام قبول کر لیا۔ سکھ جمع ہو گئے اور ان کا مطالبہ تھا کہ ان کی عورت مسلمان نہیں ہو گی۔ میں نے کہا ہاں بھئی ، یہ تو واقعی کوئی مروت اور انسان دوستی نہ ہوئی۔ کہنے لگا اور کیا عاصم بھائی، بہت آسان ہے سکھنی کو مسلمان کرنا بس انسان کے پاس تھوڑی قوت اور پیسہ وغیرہ ہو اور پیچھے کوئی مضبوط ہاتھ ہو۔ میں نے کہا واہ بچے، یہ ہوئی نہ مردوں والی بات، جنت کی جنت اور محبت کی محبت۔ کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہنستے،اِدھر اُدھر رک کر تصویریں اتارتے ہم گردوارے کا چکر مکمل کر کے ’’سُرور تالاب‘‘ پہنچ گئے جہاں یاتری اشنان کرتے ہیں۔تالاب کے ارد گرد برآمدے میں ستونوں پر ایک پوسٹر جگہ جگہ چسپاں تھا۔ میں نے قریب ہو کر پڑھا، لکھا تھا:

’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments