کیا بڑی سچائیوں کا آغاز سوال اٹھانے سے ہوتا ہے؟


انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ روایتی سچائیوں اور اتھارٹیز کو ہر دور میں کڑے اور سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ ارتقائی عمل کا ایک لازمی حصہ ہوتا ہے، جب کسی تہذیب میں روایات کی شاہراہ طویل ہو جاتی ہے اور ایک طرح سے جمود کی سی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے تو کچھ غیرروایتی لوگ جوکہ اقلیت میں ہوتے ہیں وہ روایات کی اس طویل شاہراہ کے آگے ایک نئی سوچ اور فکر کی ایک نئی شاہراہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شروع شروع میں اس غیر روایتی اقلیت کو اتنی زیادہ مقبولیت نہیں ملتی اور اس اقلیت کو سماج کے روایتی پنڈتوں کی مخالفتوں، دھمکیوں اور الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ نئی دریافتیں اور فکر و سوچ پہلے سے قائم اور تسلیم شدہ اتھارٹیز پر ایک کاری ضرب لگاتیں ہیں جس کی وجہ سے ان اتھارٹیز کی حرمت و تقدس کی روایتی دیواروں میں بڑے بڑے شگاف پڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک دن وہ بوسیدہ روایتی دیوار نئے سوالات کی تاب نہ لا کر خود بخود مسمار ہوجاتی ہے۔

آج تک کوئی ایسی جیل یا کال کوٹھری نہیں بنی کہ جہاں پر نئے پیدا ہونے والے خیالات اور سوچ کو پابہ زنجیر کیاجاسکے۔ نئی سوچ، نیا خیال اور ایک نئی فکر ہی جمود کو توڑتی ہے اور کائنات کی رنگینیوں میں نئے قمقموں کا اضافہ کرتی ہے۔ نئی سوچ وفکر کے راہی ہمیشہ خود سے مکالمہ کرتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار اس مکالمہ کی بڑ سماج کے ایسے لوگوں تک بھی پہنچ جاتی ہے جو ابھی اس سچ کی معرفت تک پہنچنے کے اہل نہیں ہوتے، ایسے روایتی لوگوں کے اذہان عقائد کی کال کوٹھریوں میں مقید ہوتے ہیں۔

اس قسم کے لوگ الگ طرح سے سوچنے والے بڑے بڑے اذہان پر توہین کا الزام لگا دیتے ہیں اور انہیں نسل انسانی سے ہی دیس نکالا دینے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں۔ منصور کا کیا قصور تھا؟ اس کا قصور بس اتنا سا تھا کہ وہ ایک الگ ڈھنگ سے سوچتا تھا۔ اس دور کے لوگوں نے انا الحق کو کفر جانا اور منصور کو دار پہ چڑھنا پڑا۔

نئی سوچ و فکر ہمیشہ ہی مقید ذہنوں کے لیے انحراف رہی ہے۔ اگر ہم تاریخ کو کھنگالیں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا کی ہر نئی سچائی کو الزامات کا سامناکرنا پڑا ہے، نئی سچائیاں برداشت، تحمل اور قربانی کا تقاضا کرتی ہیں کیونکہ نئی سچائیوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے زائدالمیعاد سچائیوں کو چھوڑنا پڑتا ہے اور اپنے پہلے سے قائم شدہ نظریات کے بوجھ کو اپنے کندھوں سے اتارنا پڑتا ہے۔ اس بوجھ کو اتار کر آگے بڑھ جانے کا سچا جذبہ سماج کے چند روشن دماغوں میں ہی ہوتا ہے اور یہ لوگ اقلیت میں ہوتے ہیں۔

تاریخ کا تسلسل ہمیں یہی بتاتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد یہی اقلیت اکثریت میں بدل جاتی ہے اور نئی سچائیوں کے لیے راہ مزید ہموار ہو جاتی ہے۔ نئی سچائیاں پہلے سے قائم شدہ سچائیوں پر سوال کھڑے کرتی ہیں جبکہ روایتی فکر کو یہ سوالات توہین آمیز دکھائی دیتے ہیں جبکہ تصویر کا حقیقی رخ یہ ہے کہ آج کی جدید دنیا کی یہ ہیت نئے سے نئے خیالات و تصورات کے پنپنے کا ہی نتیجہ ہے ورنہ آج کا انسان ابھی تک غاروں میں ہی کہیں چھپا بیٹھا ہوتا۔

نئی سچائیوں کو پیش کرنے والی نابغہ روزگار ہستیوں کو بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سقراط کو اپنے سچ کی پاداش میں زہر کا پیالہ پینا پڑ گیا اور گلیلیو کے سچ کو 1615 ء میں رومن کی مذہبی عدالت نے غلط اور بے وقوفانہ قرار دے کر رد کر دیا مگر 7 نومبر 1992 ءکو 359 سال بعد پوپ جان پال دوئم نے گلیلیو کے سچ کو تسلیم کرتے ہوئے چرچ کی طرف سے معافی مانگی۔ نیلسن منڈیلا کو اپنے سچ کو ثابت کرنے کے لیے 27 سال جیل میں گزارنا پڑے بالآخر 1993 ء میں اس کے سچ کو تسلیم کرتے ہوئے نوبل امن ایوارڈ سے نوازا گیا۔

دنیا کی بڑی بڑی سچائیوں کی ابتداء کسی نا کسی سوال کی صورت میں ہی ہوتی ہے کیونکہ عوام کی اکثریت پرانے سچ کی عادی ہو چکی ہوتی ہے اور روایتی اذہان ان سچائیوں کو فوری طور پر تسلیم کرنے کے متحمل نہیں ہوتے۔ نئی سے نئی دریافتوں کا یہ سفر صدیوں سے چلتا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ یہ ارتقا اور تاریخ کا کڑوا سچ ہے جسے ہمیں ماننا ہی پڑے گا اور اسی میں ہی ہم سب کی بھلائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments