جاہلوں اور ان کی حکومت میں ایک سیانا، ندیم افضل چن


ڈاکٹر یاسمین راشد فرماتی ہیں ’ہمارا موازنہ باہر کے لوگوں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ایسی قوم ہیں جو بالکل بات نہیں مانتے۔ خاص طور پر لاہوریے ایک علیحدہ مخلوق ہیں اللہ کی۔ وہ تو بالکل کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہوتے اور ہر چیز کو بطور تماشا دیکھتے ہیں جو کہ بہت افسوسناک ہے۔ ۔ ۔‘ ان کا مزید کہنا تھا ’بتائیے یہ کوئی بات ہے کہنے والی، ہم کس طرح کے لوگ ہیں۔ ۔ ۔ بالکل جہالت۔ میں تو کہتی ہوں شاید کم ہی کوئی قوم اتنی جاہل ہو گی جس طرح کے ہم لوگ ہیں۔‘

پیر کی رات شو میں ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا ’ہم نے لوگوں کو سمجھانے اور بتانے کی پوری کوشش کر لی کہ شاید سوا مہینے کے اندر عوام ہماری کوئی بات سن لے لیکن اب ہم نے دوبارہ اپنے اوپر ذمہ داری لے لی ہے۔ ۔ ۔ مجھے پتا چلا ہے کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کیونکہ تحریک انصاف نے کہا ہے ماسک پہننا ہے اس لیے ہم نہیں پہنیں گے۔ ۔ ۔‘

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف کی کابینہ ابھی یکم اپریل کو مریخ سے اتری ہے جو انہیں اپنے عوام کا نہیں پتہ؟ اپنے عوام کو نہیں جانتے تو یہ کیسے سیاست دان ہیں۔ پھر تو ان سے بہت بہتر ندیم افضل چن ہیں، جو کرونا پھوٹنے سے پہلے ہی عوامی زبان میں مختیارے کو معاملات کی سنگینی سمجھا رہے تھے۔

مان لیا کہ عوام جاہل ہیں۔ جب آپ نے انہیں جاہل رکھا ہے تو وہ کیا کریں؟ جب یہی جاہل قوم اور خدا کی علیحدہ مخلوق دبئی جاتی ہے تو کیوں تیر کی طرح سیدھی اور کوے کی طرح سیانی ہو جاتی ہے؟ ادھر کی حکومت کی بات یہ جاہل کیوں نہیں ٹالتے؟ کیوں نہایت عقیدت و احترام سے تمام قوانین پر عمل کرتے ہیں؟ کیا دبئی ائرپورٹ پر اترتے ہی چٹا ان پڑھ پاکستانی یک دم پی ایچ ڈی ہو جاتا ہے؟

معاملہ حکومت کی نا اہلی اور اقربا پروری کا ہے۔ جب ہر شخص کو پتہ ہے کہ وہ معمولی سی رقم سرکاری اہلکار کو دے کر یا کسی بڑے آدمی سے فون کروا کر قانون کے جال کو توڑ سکتا ہے، تو وہ کیوں قانون پر عمل کرے؟ یہاں تو قانون شکنی کرنا اور فرض شناس سرکاری اہلکار کا اس کو چھوڑنے پر مجبور ہونا سٹیٹس سمبل ہے۔

کیا آپ کے ممبران صوبائی اور قومی اسمبلی اپنی مرضی کے تھانیدار نہیں لگواتے؟ کیا ان ممبران کے ایک اشارے پر ان جاہل عوام کے حکمران اسسٹنٹ اور ڈپٹی کمشنروں کو تبدیل نہیں کرتے؟ کیا قانون ان افسران کو تحفظ دیتا ہے؟ کیا ان کی تعیناتی تین سال کے لیے ہوتی ہے؟ آج کل تو وہ تین ماہ بھی نہیں چل رہے۔ اس علیحدہ مخلوق لاہوریوں کے صوبے میں پچھلے پونے دو سال میں کتنے چیف سیکرٹری اور آئی جی تبدیل کیے گئے ہیں؟ ایسے حالات میں وہ قانون پر چلیں گے یا سیاست دانوں کے غیر قانونی اشارے پر۔

چلیں اس معاملے کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ کرونا کو ایک معمولی سا فلو قرار دینے والا کون تھا جس نے عوام کو بھی یقین دلا دیا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ جب مئی کے مہینے میں عید سے بھی پہلے پنجاب کے محکمہ صحت نے نہات فرض شناسی اور ذمے داری سے کام لیتے ہوئے ایک واضح تصویر پیش کر دی کہ لاہور میں تقریباً چھے فیصد شہری کرونا کا شکار ہو چکے ہیں، تو حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے؟ اس نے تو اس رپورٹ کو اپنی دری کے نیچے چھپا دیا تھا۔

جب سپریم کورٹ نے مارکیٹیں بند کرنے کا حکم دیا، تو کیا اسے آگاہ کیا گیا تھا کہ لاہور میں صورت حال وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے اور ایسی خوفناک ہے کہ پونے سات لاکھ لاہوری اس کا شکار دکھائی دے رہے ہیں؟ کیا لاک ڈاؤن اور ماسک پہننا ہی دنیا میں اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے موثر طریقے کے طور پر سامنے نہیں آئے تھے، پھر جاہلوں کے وہ کون بادشاہ تھے جو لاک ڈاؤن کی مخالفت کر رہے تھے؟ کیا میڈیا پر ماسک پہننے کے لیے ایک بڑی مہم چلائی گئی تھی؟ جب سوشل میڈیا پر چل رہا تھا کہ کرونا شرونا کچھ نہیں ہوتا، تو ایسی افواہوں کی روک تھام کے لیے حکومت نے کیا کیا تھا؟ اور کچھ نہیں تو کیا پیمرا نے نجی چینلوں کو مجبور کیا تھا کہ قواعد کے مطابق پبلک سروس میسیج کا طے شدہ وقت دیا جائے؟ کیا پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا میں آگاہی مہم چلائی گئی تھی؟

اس معاملے میں حکمران خود کو واقعی جاہلوں کے بادشاہ ثابت کر گئے، تو پھر جاہلوں سے کیا گلہ؟ ہاں یہ ماننا پڑے گا کہ ان میں ایک شخص نہایت سیانا نکلا۔ ابھی وبا نے پوری طرح پنجے نہیں گاڑے تھے کہ ندیم افضل چن نے، جو عوام میں سے ہیں اور عوام سے جڑے رہنے کے لیے مشہور ہیں، مختیارے کو ایسے الفاظ میں وبا کی سنگینی سے خوب آگاہ کر دیا تھا جو وہ سمجھتا تھا۔ اس پوری حکومت میں اگر کسی شخص کو کرونا کے معاملے میں سنجیدگی دکھاتے دیکھا گیا تو وہ ندیم افضل چن ہی ہیں۔ اب اگر انہیں ہی اس وبا سے نمٹنے کے لیے کوئی اہم منصب دینے کی بجائے ”مشیر بیکار خاص“ لگا کر سائیڈ پر پھینکا ہوا ہے تو حکومت کی معاملہ فہمی اسی سے دکھائی دے جاتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments