کورونا سے کورونا تک!


اس وقت پوری دنیا میں کورونا سے بڑا کوئی مسئلہ نہیں۔ انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کا برا حال ہو چکا ہے امریکہ جیسے ملک میں کروڑوں افراد بے روزگاری کے بھنور میں پھنس چکے ہیں۔ یہی حالات اٹلی ’فرانس‘ جرمنی ’برطانیہ اور جاپان جیسے ممالک کے بھی ہیں لیکن ان ممالک میں عوام اور معیشت کو بچانے کے لئے یہ ممالک سر جوڑ چکے ہیں جنوبی کوریا‘ اٹلی ’چین اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک اپنے بہترین عملی اقدامات کی بدولت اس وبا سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔

لیکن اس صورتحال کے بر عکس پاکستان میں کورونا ہلاکتوں کی تعداد تشویشناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے تین ہزار کے قریب افراد اس سفاک وائرس کی زد میں آکر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ایک لاکھ پینتیس ہزار سے زائد افراد کو یہ وائرس ڈس کر انہیں متاثر کر چکا ہے۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک جہاں پہلے ہی عوام مسائل سے دوچار ہے وہاں کورونا وبا کے کہرام نے عام فرد کو خوف میں اس حد تک مبتلا کر دیا ہے کہ اب وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتا ہے اس وقت حکومت کی جانب سے کوئی ایسی حکمت عملی سامنے نہیں آ رہی جو اس وبا سے عوام کو بچاتے ہوئے بہتر مستقبل کی ضمانت فراہم کر سکے۔

حکمرانوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اگر حالات سے بچنے اور منہ چھپانے کی روش اختیار کرتے ہوئے عوام کو اس وبا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو اس ملک میں ایک ایسی تباہی آئے گی جہاں انسانی امیدوں‘ خواہشات سمیت سب کچھ تہہ و بالا ہو جائے گا۔ اس وبا کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے درمیانی راہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے پوری دنیا اس وبا کی موجودگی میں غور و فکر سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھنے کے لئے راستے تلاش کر رہی ہے وزیر اعظم دنیا کے بدلتے حالات پر نظر رکھتے ہوئے آنے والی تبدیلی کے لئے کس حد تک عوام کو اس وبا سے بچاتے ہوئے تیار نظر آتے ہیں یقیناً اس کا جواب اثبات کی بجائے نفی میں ملے گا۔

حالات کے پیش نظر اشد ضرورت ہے کہ موجودہ وسائل کے بہترین استعمال کے ذریعے عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے ان گمبھیر حالات میں ملک و ملت کی ترقی کی فکر کریں۔ اس وقت ملک کی عوام اس وبا کے ہاتھوں ایک ایسے انجانے خوف میں مبتلا ہوچکی ہے کہ نہ جانے کب کورونا فرشتہ اجل کی صورت عوام کی شہ رگ دبوچ لے اس حقیقت سے مفر نہیں کہ یہ وائرس قدرتی ہے یا انسان کا تیار کردہ لیکن اس کے خوف کے تاثر کو زائل کرنے کے لئے حکومتی اقدامات زیرو ہیں موجودہ حالات اس نہج پر پہنچ کر دستک دے رہے ہیں کہ اس وبا سے بچاؤ کے لئے اجتماعی سوچ اور آگاہی کی اشد ضرورت ہے حکمرانوں کی یہ اجتماعی سوچ نہ صرف عوام کے لئے بلکہ ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے روشن کل کی ضمانت ہو گی۔

عوام کو مزید خوف میں مبتلا نہ کریں عوام تو پہلے ہی مسائل کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے ایسا نہ ہو کہ یہ عوام ان حالات اور بحرانوں سے تنگ آکر سڑکوں پر نکل آئیں اگر حکمران اس بات کا انتظار کر رہے ہیں تو نئے پاکستان کی سوچ عمل کے زینہ پر قدم رکھنے سے قبل ہی دفن ہو جائے گی۔ ان حالات میں ہمیں مثبت انداز فکر اختیار کرنے کی ضرورت ہے مایوسی ’نا امیدی جیسی نفی راستے بند کر دیتی ہے جبکہ اثبات نئے راستے اور نئی روشنی کے امکانات پیدا کرتا ہے۔

کورونا کی وجہ سے جو سماج میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ معیشت ’تجارت اور روزگار پر جو اثر پڑا ہے اس سے مایوس اور منفی سوچ میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان اور تقریر ریکارڈ کا حصہ ہے کہ کورونا نے پھیلنا ہے اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ یہ وائرس ہماری غفلت و لاپرواہی کے باعث مزید پھیلے گا لیکن ملک کی منتخب جمہوری حکومت اس وبا کو قابو کرنے کے لئے کون سے عملی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ کیا صرف عوام کو اس وبا سے بچانے کے لئے یہی کافی ہے کہ عوام احتیاط کریں ایک منتخب جمہوری حکومت کی ذمہ داری میں یہ شامل ہوتا ہے کہ وہ عوام کو مسائل اور بحرانوں سے اپنے عملی اقدامات کے ذریعے نجات دلوائے۔

دنیا کے بیشتر ممالک کو اس وائرس نے دس سال پیچھے دھکیل دیا ہے پاکستان میں تاحال عوام کو کورونا وائرس کی حقیقی صورتحال سے دور رکھا جا رہا ہے سمارٹ لاک ڈاؤن اور ایس او پیز پر عملدرآمد کی صورتحال یہ ہے کہ ضلع سطح کی انتظامیہ اس میں بری طرح فلاپ ہو چکی ہے ضلعی انتظامیہ حکومتی حکمناموں کو اہمیت نہ دیتے ہوئے عملدرآمد سے کیوں گریزاں ہے وزیر اعظم کو اس کے پس پردہ محرکات کا جائزہ لینا چاہیے کیونکہ حکومتوں کی گڈ گورننس ملک و ملت کے مفاد میں اٹھائے گئے عملی اقدامات سے ہی ظاہر ہوتی ہے۔

اس وقت صورتحال یہ کہ وزیر اعظم کی کابینہ میں بیٹھے کسی ایک وزیر کے محکمہ کی کارکردگی کا بتا دیں جس سے اندازہ ہو سکے کہ یہ محکمہ اپنا قبلہ درست کر چکا ہے۔ حکومت کی دو سالہ کارکردگی نے عوام کو مایوسی کے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ بجا کہ کورونا پاکستان کا ہی نہیں بلکہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے لیکن پاکستان کی عوام کو اس وبا سے بچانے کے لئے حکومتی اقدامات صفر ہیں۔ قانون کی عملداری نہ ہونے کے باعث اخذ کرنا دشوار نہیں کہ حکومت کی پالیسی عوام کو اس وبا سے بچانے میں کس حد تک کارگر ہے۔

حکومت کو دنیا میں غربت و بیروزگاری کے بڑھتے ہوئے تشویشناک اعداد و شمار پر نظر رکھتے ہوئے ملک و ملت کو اس وبا سے بچانے کے لئے حکمت عملی وضع کرتے ہوئے حرکت میں آنا چاہیے۔ کنگس کالج لندن اور آسڑیلین نیشنل یونیورسٹی کے محققین نے اقوام متحدہ کی اقتصادی تنظیم کی شراکت کے ساتھ پیش کیے گئے اپنے تازہ سروے میں کہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک ارب لوگ غریب سے غریب تر ہو گئے اور ان میں سے انتالیس کروڑ پچاس لاکھ غریب افراد صرف جنوبی ایشیائی ممالک میں ہیں۔

اعداد و شمار کی یہ خطرناک دستک کیا پاکستان کے حکمرانوں کو سنائی نہیں دے رہی۔ صاف لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ غربت اور بیروزگاری کے معاملے میں عالمی سطح پر ڈرامائی انداز میں تبدیلی سامنے آئے گی جو ممالک ترقی کی منازل طے کر رہے تھے وہ اس تازہ لہر کی زد میں آکر ترقی پذیر ممالک کی صف میں ہو نگے غربت اور بیروزگاری کو ختم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج بن جائے گا نیز یہ غربت‘ بیروزگاری ’عالمی‘ سیاسی اور ثقافتی منظر نامہ کو تبدیل کر کے رکھ دے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ لاک ڈاؤن مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی آمجگاہ کا نام ہے عوام تو کورونا سے کورونا تک کا تکلیف دہ اور پر خطر سفر طے کرتے ہوئے اعصابی طور پر تھک چکی ہے۔ ہماری تو وزیر اعظم سے دست بستہ استدعا ہے کہ اس خوف سے عوام کو نجات دلائیں نہ کہ ڈرائیں ایس او پیز پر عملدرآمد کے لئے ضلعی سطح پر جانچ کا کوئی پیمانہ بھی طے کریں دو سال کی حکومت کی کارکردگی ان وزیروں ’مشیروں کی دہلیز پار کر کے عوام کو تو ریلیف فراہم نہیں کر سکی کم از کم عوام کواپنے عملی اقدامات کے ذریعے اس وبا سے بچنے کا محفوظ راستہ تو فراہم کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments