جاہل عوام اور بیکار ادارے


ہمارے سیاستدان بھی عجب بادشاہ لوگ ہوتے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں ووٹ مانگنے کے لیے جب گلی محلوں کے دروں، دیواروں اور کھمبوں پر پوسٹرز چھپوا کر لٹکاتے اور چپکاتے ہیں تو ان میں لکھتے ہیں ”منجانب: حلقے کے باشعور عوام“ لیکن اقتدار میں آکر وہی عوام نجانے کیوں انہیں جاہل لگنے لگتے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کی صحتمند وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ نے وطن عزیز میں کورونا کے بے قابو ہوتے جن کا ذمہ دار عوام کو ٹھہراتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی قوم اتنی جاہل ہو اور یہ کہ یہ خدا کی کوئی الگ ہی مخلوق ہے جو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔

حالانکہ بظاہر تو الگ مخلوق ہمارے حکمران لگتے ہیں کہ جو اول تو صورتحال پر قابو پانے کے لیے کوئی حکمت عملی بنانے سے قاصر رہے اور پھر اپنی ناکامی چھپانے کی غرض سے عوام پر ذمہ داری ڈالتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ اتنے سادہ ہیں کہ اپنی نا اہلی اور ناکامی سے ناواقف ہوں اور نہ جانتے ہوں کہ یہ کوئی عوام کی اخلاقیات کا مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی ناکامی کا معاملہ ہے لیکن ان میں اتنی اخلاقی جرآت بھی نہیں کہ وہ یہ ذمہ داری قبول کر سکیں اور نہ اتنے اہل ہیں کہ اس کا ازالہ کر سکیں۔

کورونا کے معاملے پر وفاقی حکومت شروع دن سے ہی الجھن کا شکار رہی ہے اور اس مسئلے پر کوئی بھی ٹھیک، ٹھوس اور بروقت فیصلہ نہیں لے پائی۔ انہوں نے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی سوائے ہوا میں تیر چلانے کے۔ کورونا سے نمٹنے کے لیے اگر کوئی میدان میں کودا تو وہ خلاف توقع حکومت سندھ۔ جس نے لاک ڈاؤن میں پہل کر دی۔ لیکن صوبائی حکومت کی یہ پہل وفاقی حکومت کے لیے انا کا مسئلہ بن کر رہ گئی۔ وفاقی حکومت بھلا لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنا کر کیسے صوبائی حکومت کی راہ پر چل سکتی تھی!

یہاں تک کہ وفاقی وزرا کے لیے ”لاک ڈاؤن“ کا لفظ ہی اچھوت بن گیا۔ بے چارے وزرا کے لیے کئی دنوں تک یہ بھی ایک عجب چیلنج بنا رہا کہ کہنا لاک ڈاؤن ہی ہے لیکن گھما پھرا کر۔ لاک ڈاؤن کا لفظ دہرانے سے وفاقی حکومت یوں اجتناب کرتی رہی کہ جیسے یہ لفظ ہی صوبائی حکومت کی ایجاد ہو۔ حالانکہ سندھ حکومت نے بھی لاک ڈاؤن کی حکمت عملی دنیا کے باقی ملکوں کی دیکھا دیکھی اپنائی تھی اور یہی کامن سینس کا تقاضا تھا کہ جن ممالک نے پہلے اس وبا کا مقابلہ کیا ہو ان کے تجربات سے استفادہ حاصل کیا جائے۔ اور ان ممالک نے ظاہر ہے کہ یہ حکمت عملی چین سے نقل کی کہ وہاں سب سے پہلے کورونا پھیلا اور انہوں نے لاک ڈاؤن کے ذریعے اس پر قابو پا لیا۔

لیکن وفاقی حکومت نہ صرف خود مسلسل الجھن کا شکار ہوتی چلی گئی بلکہ انہوں نے عوام کو بھی عجب الجھن میں مبتلا کر کے رکھ دیا۔ کبھی فرماتے کہ گھبرانا نہیں ہے کورونا فلو کی ہی قسم ہے جو آکر چلا جائے گا اور آپ کو خبر تک نہیں ہوگی اور کبھی فرماتے کہ گھبراتے کیوں نہیں ہو! آپ نے تو کورونا کو فلو سمجھ رکھا ہے۔ کبھی سمجھاتے کہ لاک ڈاؤن تو کوئی حل نہیں ہے اور کبھی سمجھاتے کہ لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ یوں اس الجھن میں کورونا پھیلتا چلا گیا اور اب جبکہ یہ وبا دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے تب حکومت اپنی ناکامی اور نا اہلی چھپانے کے لیے عوام کو جاہل اور غیر سنجیدہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اگر یوں انتظامی معاملات کو عوام کی اخلاقی ذمہ داری کے سہارے چھوڑنا ہے تو پھر تھانوں کی کیا ضرورت ہے؟ تحقیقاتی ایجنسیوں کی اور عدالتوں کی کیا ضرورت؟ ان اداروں کو تالے لگا کر ملکی خزانے پر بوجھ کم کریں اور سب کچھ عوام کی اخلاقی ذمہ داری پر چھوڑ دیں، راوی چین ہی چین لکھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments