کرونا بجٹ اور ہمارا جگاڑ


لطیفہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ امریکی صدر کے کچھ نمائندے پاکستان آئے تو ان کو مختلف صنعتوں اور جگہوں کی سیر کروائی گئی۔ ان کا مقصد یہ پتا کرنا تھا کہ اتنے مشکل حالات کے باوجود یہ ملک کس طرح سروائیو کر رہا ہے۔ وطن واپسی پر جب صدر نے ان سے رپورٹ مانگی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستانیوں نے تو اپنی ہر چیز جگاڑ پر چلائی ہوئی ہے۔ صدر نے پوچھا کہ جگاڑ کیا ہوتا ہے تو وفد نے جواب دیا ہمیں یہ تو نہیں پتا لیکن ہم جس جگہ بھی گئے تو ہمیں یہ ہی بتایا گیا کہ جگاڑ لگایا ہوا ہے۔

پھر جب امریکی صدر نے کہا کہ آپ نے حکومت سے پوچھا نہیں کہ جگاڑ ہوتا کیا ہے؟ اور آپ نے پاکستانی حکومت سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ یہ جگاڑ ہمیں دے دیں۔ وفد نے جواب دیا کہ ہم نے حکومت سے جگاڑ مانگنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کو کیسے دے دیں ہم نے تو خود اپنی حکومت جگاڑ پر چلائی ہوئی ہے۔

وفاقی حکومت نے دو دن پہلے ساڑھے تین ارب خسارے کے ساتھ اپنا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کر دیا ہے۔ اب یہ خسارہ کیسے پورا ہو گا، اس کے لئے بھی حکومت کو آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرضوں کا جگاڑ لگانا پڑے گا۔ بجٹ ان حالات میں پیش کیا گیا ہے کہ ایک طرف تو ملک کو آٹا چینی گندم اور پٹرول بحران کا سامنا ہے جب کہ دوسری طرف کر ورونا کی بیماری نے سانس لینا مشکل کیا ہوا ہے۔ بجٹ بارے میں ہر حلقہ میں چہ میگوئیاں جاری ہیں۔

کہیں اسے ان حالات میں بہترین بجٹ کہا جا رہا ہے تو کہیں اپوزیشن کے لوگ اس بجٹ کو غریب عوام کے لئے تباہ کن قرار دے رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین بھی اپنی تنخواہوں سے اضافہ نہ ہونے سے بجٹ سے خوش نظر نہیں آ رہے۔ معاشی ماہرین بھی کسی ایک نکتے پر متفق نظر نہیں آ رہے کچھ کی نظر میں بجٹ بہترین ہے جب کہ کچھ کے مطابق اس میں ابھی کافی نقائص ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم جیسا ایک عام سی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی اپنی کوئی بھی رائے بنانے سے قاصر ہے۔

بجٹ کیا ہے، اعداد کا گورکھ دھندہ کہ جسے سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ آسان لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ بجٹ در حقیقت اس حساب کتاب کا نام ہے کہ وفاقی حکومت سال بھر میں کتنا کمائے گی اور کتنا کتنا کہاں کہاں لگائے گی۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی جیب کو دیکھتے ہوئے، اپنی آمدن کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے گھر کا بجٹ بناتا ہے۔ لیکن گھریلو بجٹ اور ملکی بجٹ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے کہ گھر کا بجٹ مہینے بعد آنے والی تنخواہ اور گھر کے چند افراد کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے جب کہ ملکی بجٹ میں کروڑوں افراد اور ملکی اداروں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔

یہ بات تو ازل سے روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ ہر حکومت بجٹ بناتی ہے، اس میں بہت ساری خامیوں کے باوجود بھی حکومتی ارکان اسے وقت کا بہترین بجٹ ثابت کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اور اپوزیشن کا کام اس بجٹ کی تمام خوبیوں کو ایک طرف رکھ کر صرف خامیوں کو اجاگر کرنا اور واویلا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غریب عوام کو اپوزیشن یا حکومت کی لڑائی سے کوئی غرض نہیں۔ پاکستان کے مڈل اور لوئر مڈل کلاس طبقے کو فکر ہے تو اپنے پیٹ اور روزگار کی۔

حال ہی میں پیش کیے گئے بجٹ کے ساتھ بھی یہی صورت حال ہے۔ اگرچہ ماہرین کے مطابق بجٹ میں کچھ نقائص موجود ہیں لیکن اس کے باوجود کرونا کی اس صورتحال میں شاید اس سے بہتر بجٹ ممکن نہ تھا۔ لیکن اصل فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا آیا کہ بجٹ ملک و قوم کے لئے بہتر ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ جس طرح پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے پہلے اس سے بہت ساری توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں لیکن حکومت ملنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف ان کو پورا نہ کر سکی، اس طرح اس بجٹ سے پہلے ہی بہت ساری توقعات وابستہ کرلینا کوئی خوش آئند بات نہ ہو گی۔

حکومت وقت نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو خوشحالی کے بہت سے لولی پاپ دکھائے تھے۔ عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی اراکین اپنی تقاریر میں کہا کرتے تھے کہ جس دن پی ٹی آئی اقتدار میں آ گئی اس دن سوئس بینکوں میں پڑا دو سو ارب ڈالر واپس آ جائے گا، دس بارہ ارب ڈالر شریف برادران اور کم وبیش اتنے ہی مرد حر آصف علی زرداری سے نکلوانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ سب پیسا اکٹھا کر کے آئی ایم ایف کا قرضہ ان کے منہ پر مار کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا پلان تھا لیکن جب خان صاحب اقتدار میں آئے تو ان کے سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ کنٹینر پر چڑھ کر دعوے کرنے، اپوزیشن میں رہ کر تنقید کرنے اور حکومت میں رہ کر پالیسیاں بنانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ حکومت کے اگر یہ دعوے پورے ہو چکے ہوتے تو ہمیں قرضوں اور سود کی مد میں 5000 ارب نہ دینا پڑتے اور نہ ہی بجٹ خسارے کو برداشت کرنا پڑتا۔

تحریک انصاف کی حکومت ویسے ابھی تک تو عوامی توقعات پر پورا اترنے سے قاصر ہی رہی ہے۔ ویسے بھی حکومتی اراکین کے پاس اپوزیشن کے لوگوں کی ناکامیوں اور ان کی کرپشن کی داستانیں سنانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ کہ اپنی تو کوئی خاص کارکردگی ہے نہیں جس کو بیان کیا جا سکے۔ جب نئی نئی حکومت ملی تب یہ کہا جاتا رہا کہ پچھلی حکومتیں خزانہ لوٹ کر کھا گئیں، اور ملکی خزانہ خالی ہے جس وجہ سے معاشی ترقی نہیں ہو پا رہی، بعد میں کورونا کا بہانہ مل گیا اور اسی طرح لگتا ہے کہ یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری کر لے گی۔

حکومتی الزامات کو درست مان بھی لیا جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف جب حکومت میں آئی تو ملکی معیشت کی صورت حال آج سے کہیں بہتر تھی۔ اس وقت ٹوٹل جی ڈی پی 5.8 تھی۔ اور آج جی ڈی پی کی شرح منفی 4 تک گر چکی ہے۔ کرونا کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو بھی کرونا وبا سے پہلے ہی جی ڈی پی 5.8 سے 2.3 تک گر چکی تھی۔ اگرچہ بجٹ۔ 21 2020 کے اہداف میں جی ڈی پی کو 2.1 تک لانے کا ہدف بھی شامل ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیے بغیر اور خاطر خواہ اقدامات کیے بغیر ایسا کیسے ممکن ہے؟

بجٹ میں عوام کے لئے سب سے زیادہ سود مند بات یہ کہ کرونا کی اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کسی قسم کے نئے ٹیکسز کا نفاذ نہیں کیا گیا۔ کرونا وبا سے نمٹنے کے لئے 1200 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ کرونا مصنوعات کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کرنا بھی خوش کن امر ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وبا سے جہاں کاروبار بند پڑے ہیں وہاں آنے والے دنوں میں بے روزگاری کا سیلاب آنے والا ہے۔ لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ اس متوقع بے روزگاری سے نمٹنے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی اس خاطر بجٹ میں کوئی رقم رکھی گئی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں تعلیم پر پیسہ خرچ کرتی ہین۔ سال 2019۔ 20 کے بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو پچھلے سالوں کی نسبت دی جانے والی رقم میں کٹوتی کر دی گئی تھی جس وجہ سے مختلف یونیورسٹیوں میں ایم فل، پی ایچ ڈی کے کچھ پروگرام بند بھی ہو گئے لیکن حالیہ بجٹ میں حکومت نے پچھلے سال کی نسبت ایچ ای سی کو دی جانے والی رقم 59 ارب سے بڑھا کر 64 ارب کر دی گئی ہے جو کہ بہت امید افزاء بات ہے، امید ہے کہ اس کے روشن اثرات بھی یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق کی صورت مین جلد ہی ظاہر ہوں گے۔ بجٹ میں کرونا اور لاک ڈاؤن کا بہانہ بنا کر بڑھتی مہنگائی کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا لیکن یہاں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر نیب اور ایف آئی اے و دیگر بیوروکریسی کے افسران کی تنخواہوں میں حالیہ اضافہ کیوں کیا گیا ہے؟

کفایت شعاری کی مہم برقرار رکھتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات کو کم کرنا انتہائی خوش کن بات ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اگر وزیر اعظم گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹی بنانے کے اپنے دوسرے کیے گئے وعدوں کو بھی پورا کریں۔ ایک ملاقات میں ہم نے گورنر پنجاب سے اس بابت پوچھا کہ خان صاحب کے بقول گورنر ہاؤس یونیورسٹی بنائی جائے گی تو ایسا کب تک ممکن نظر آتا ہے تو ان کا جواب کچھ حوصلہ افزاء نہ تھا بلکہ وہی پرانی باتیں کہ جو ہر حکومتی اہلکار اور تحریک انصاف کا ہر حمایتی شروع سے ہی کرتا آ رہا ہے کہ ابھی کچھ وقت تو دیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ کرے سب ٹھیک ہو جائے لیکن ان حالات میں ایسا ہوتا تو ہمیں نظر نہیں آتا۔

حکومت وقت کو شروع سے ہی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ یہ کبھی آٹا بحران کی صورت میں سامنے آتے ہیں تو کبھی چینی بحران کی صورت میں۔ حال ہی میں پٹرول اور گندم کی قلت کے مسئلہ کا بھی سامنے ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی آدھے سے زیادہ آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے منسلک ہے۔ ایسی صورت میں ملک میں گندم کا بحران پیدا ہو جانا یا بجٹ میں زراعت کی خاطر صرف 10 ارب کی قلیل رقم مخصوص کرنا کہ جب زراعت کو ٹڈی دل کے مسئلہ کا سامنا بھی ہے، سمجھ سے باہر ہے۔ ماہرین تو یہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے اس سال ہمیں گندم درآمد کرنی پڑ جائے۔ تو ایک زرعی ملک کے لئے گندم درآمد کرنا کتنے فخر کی بات ہو سکتی ہے بھلا؟

فوج اسی فیصد بجٹ کھا جاتی ہے کا پراپیگنڈا کرنے والوں کو بھی ایک دفعہ بجٹ دستاویزات کا مطالعہ کرنا چاہیے تا کہ ان کو پتا چل سکے کہ بجٹ میں سے کتنے فیصد افواج پاکستان کے حصے میں آیا ہے۔ المختصر بجٹ کس حد تک عوام دوست ثابت ہوتا ہے، حکومت بجٹ میں مقرر کیے گئے اہداف کو کس حد تک حاصل کر پاتی ہے، اس بارے آنے والے وقت بتائے گا۔ اللہ کرے یہ ملک و قوم کے لئے بہترین ثابت ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments