سویڈش وزیراعظم کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا امکان؟


سویڈن کے ہردلعزیز کرشماتی وزیراعظم اولوف پالمے کو 1986 ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس ہائی پروفائل قتل کے 34 برس بعد چند دن قبل سویڈش حکام نے قاتل کی نشاندہی کی ہے اور یہ کہہ کر کیس پر کارروائی بند کردی کہ مذکورہ قاتل کئی برس پہلے خودکشی کرچکا ہے۔ سویڈن کے وزیراعظم اولوف پالمے کے ہائی پروفائل قتل میں ملوث قاتل کی شناخت کے بعد کچھ حیرت انگیز امکانات پر غور کیا جانا ضروری ہے۔ سویڈن کے چیف پروسیکیوٹر نے 10 جون 2020 ء کو ایک نیوز کانفرنس میں قاتل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیگ اینگسٹروم نامی شخص وزیراعظم اولوف پالمے کا قاتل تھا۔

یہ قاتل 20 سال قبل 2000 ء میں خودکشی کرچکا ہے۔ قاتل کی موت کے باعث ہم اس پر الزامات عائد نہیں کر سکتے اس لیے تحقیقات کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سویڈش حکام نے اولوف پالمے کے مقدمے کو قانونی تقاضوں کے تحت بند کر دیا لیکن ہسٹری کے کچھ ایسے اوراق پڑھتے ہیں جن کا تانا بانا جوڑنے سے معاملات کو پرکھنے کا دوسرا زاویہ بھی ملتا ہے۔ وزیراعظم اولوف پالمے کے قتل کے تقریباً ایک سال ڈیڑھ ماہ بعد 16 اپریل 1987 ء کو ایک سویڈش اخبار نے پولیس وسل بلوئر کا ذریعہ استعمال کرتے ہوئے ایک بریکنگ نیوز دی کہ سویڈن کی ہاؤٹزر توپیں بنانے والی کمپنی بوفورس نے بھارت کے ساتھ 15 سو کروڑ کا سودا پکا کرنے کے لیے 60 کروڑ کک بیکس کے طور پر دیے ہیں۔

اسی موضوع کے حوالے سے سویڈش مؤرخ جان بونڈیسن نے 2005 ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ”بلڈ آن دی سنو“ میں لکھا کہ وزیراعظم اولوف پالمے سے ان کے قتل کی صبح سویڈن میں تعینات عراقی سفیر نے ملاقات کی۔ گفتگو کے دوران عراقی سفیر نے بوفورس کی طرف سے بھارت کو دی جانے والی کک بیکس کا ذکر کیا۔ خفیہ کک بیکس کی خبر سنتے ہی اولوف پالمے کو شدید غصہ آیا۔ اس کتاب کے مصنف جان بونڈیسن کے نزدیک ہو سکتا ہے کہ اسلحہ ساز کمپنی بوفورس اور اسلحہ بیچنے والے مڈل مین نے پہلے سے ہی پیش بندی کررکھی ہوکہ وزیراعظم اولوف پالمے کو اگر ان کک بیکس کا پتہ چل گیا تو انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے گا کیونکہ وزیراعظم اولوف پالمے ایسی کسی کرپشن کے سخت خلاف تھے۔

وزیراعظم اولوف پالمے کے قتل کے ٹھیک 24 دن بعد 24 مارچ 1986 ء کو بھارت اور سویڈش اسلحہ ساز کمپنی بوفورس کے درمیان ہاؤٹزر توپوں کی فروخت کے معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ سویڈش چیف پروسیکیوٹر کی طرف سے چند روز قبل قاتل کا نام ظاہر ہونے پر ایک بھارتی ویب سائٹ پر ایک مضمون شائع ہوا جس میں لکھا گیا کہ قاتل اینگسٹروم کا تعلق بوفورس یا اسلحہ ساز انڈسٹری سے نہیں تھا۔ البتہ اس کا انڈیا سے ایک کنکشن تھا۔ ویب سائٹ کا یہ مضمون پڑھنے کے بعد وہ سوال ذہن میں آتا ہے جو بہت سوں کو چونکا سکتا ہے۔

سوال سے پہلے قاتل اینگسٹروم کے بھارتی پس منظر کا تھوڑا سا جائزہ لے لیتے ہیں۔ مشہور سویڈش صحافی اور رائٹر تھامس پیٹرسن کی 2018 ء میں فلٹر میگزین میں قسط وار شائع ہونے والی کتاب ”دی ان لائکلی مرڈرر“ کے مطابق وزیراعظم اولوف پالمے کا قاتل اینگسٹروم 1934 ء میں سویڈش والدین کے ہاں ممبئی ہندوستان میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ماچس بنانے والی وہاں کی ایک فیکٹری میں انجینئر تھا۔ قاتل اینگسٹروم نے ممبئی اور کلکتہ میں امیرانہ زندگی گزاری۔

اس کے گھر میں خانسامے، آیا، مالی اور ڈرائیور وغیرہ کی سہولتیں موجود تھیں۔ کچھ عرصے بعد قاتل اینگسٹروم کے والدین نے اسے تامل ناڈو کے ایک بورڈنگ سکول میں داخل کروا دیا۔ بعد ازاں اسے اس کے آبائی ملک سویڈن بھجوا دیا گیا۔ سویڈن پہنچ کر قاتل اینگسٹروم سویڈن کے اسی بورڈنگ سکول میں داخل ہوا جہاں مستقبل کے وزیراعظم اولوف پالمے بھی زیرتعلیم تھے۔ قاتل اینگسٹروم اپنے مزاج کے باعث تعلیم حاصل کرنے میں نالائق ثابت ہوا اور فیل ہوتا گیا جبکہ نوجوان اولوف پالمے بہترین طالبعلم ثابت ہوئے۔

کچھ لوگوں کے خیال میں قاتل اینگسٹروم کے دل میں اولوف پالمے کے خلاف زمانہ طالبعلمی سے ہی حسد کی آگ بھڑک رہی تھی۔ قاتل اینگسٹروم کے مختصر حالات زندگی کے بعد اس کیس سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ سویڈش وزیراعظم اولوف پالمے کے اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم راجیو گاندھی کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ شاید اسی لیے وزیراعظم اولوف پالمے کو ہندوستانی حکام کو دی جانے والی کک بیکس کا جب پتا چلا تو انہیں کرپشن کے اس معاملے پر زیادہ غصہ آیا۔

سویڈش پولیس کے سربراہ سٹین لنڈسٹورم کے مطابق ہندوستانی وزیراعظم راجیو گاندھی نے کک بیکس کی رقم بظاہر خود وصول نہیں کی۔ البتہ وہ اس بات کے قصوروار تھے کہ انہیں کک بیکس کا علم تھا لیکن انہوں نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اوپر بتائے گئے تمام واقعات اور دیے گئے ثبوتوں کے بعد چند نکات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر وزیراعظم اولوف پالمے ایک دن مزید زندہ رہ جاتے تو ہو سکتا ہے اگلے روز وہ اپنے دفتر جاتے ہی ہندوستان کو فراہم کی جانے والی بوفورس ہاؤٹزر توپوں کا معاہدہ منسوخ کروانے کی کوشش کرتے یا کم از کم کک بیکس کی تحقیقات تک رکوا دیتے۔

ایسی صورت میں ہندوستانی حکام کو ملنے والی کرپشن کی بڑی رقم ڈوب جاتی۔ دوسرا یہ کہ متعلقہ ہندوستانی حکام نے کرپشن کی رقم کے حصول میں رکاوٹ ڈالنے والی کسی بھی صورت کو روکنے کے لیے قبل از وقت انتظام کر رکھا تھا اور قاتل اینگسٹروم سے بہتر کوئی دوسرا شخص نہیں ہو سکتا تھا جس کی زندگی کے پس منظر میں ہندوستان اور تامل ناڈو کے علاقے موجود تھے، اس لیے اسے نفسیاتی طور پر جذباتی کرنا آسان تھا۔ تیسرا یہ کہ 1991 ء میں راجیو گاندھی کو قتل کرنے والوں کا تعلق بھی تاملوں سے جوڑا گیا تھا۔

وہ ایسے کہ راجیو گاندھی کے قاتلوں کا تعلق سری لنکا میں موجود لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) سے بتایا گیا تھا۔ چوتھا یہ کہ بوفورس ہاؤٹزر توپوں کے معاہدے کی تیاری کے وقت کے دونوں وزرائے اعظم یعنی اولوف پالمے اور راجیو گاندھی قتل کردیئے گئے اور ان کے قتل کے پس منظر میں ہندوستان، تامل ناڈو اور تاملوں کا تعلق مشترکہ ہے۔ پانچواں یہ کہ وزیراعظم اولوف پالمے کے قتل کے بعد توپوں کے معاہدے کے جاری رہنے کا براہ راست فائدہ ہندوستان کو ہوا۔ مندرجہ بالا تمام دلائل کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سویڈش وزیراعظم اولوف پالمے کو قتل کروانے میں بھارتی حکام ملوث تھے؟ کیا اس پر بھی کبھی تحقیق ہوگی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments