پاکستان میں فوج کا “دشمن” کون ہے؟


دیگر  موضوعات پر ہونے والے قومی مباحث کے علاوہ یہ معاملہ بھی اکثر و بیشتر گفتگو  کا  مرکز رہتا ہے کہ  ملک میں کچھ عناصر فوج دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔  بدقسمتی سے  یہ معاملہ محض  بحث یا حقیقی معنوں میں  ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے والے عناصر کی نشاند ہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ   الزام تراشی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔  ہر قسم کے لوگوں کی سوشل میڈیا تک رسائی  کے بعد  اس الزام تراشی  نے سنگین صورت  اختیار کرلی ہے۔

 بجا طور سے  پاک فوج  اور اس سے وابستہ ایجنسیاں  بھی ایسے عناصر کا سراغ لگانے میں سرگرم رہتی ہیں۔ ان میں سے  کچھ لوگوں کو غائب کردیا جاتا  ہے تاکہ ان کے منہ بند رکھے جاسکیں اور ان سے ملک دشمن ایجنڈے کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔   عدالتوں کی مداخلت  پر  بعض لاپتہ ہوجانے والے   شہریوں کے بارے میں  یہ اعتراف بھی سامنے آتا رہا ہے کہ  متعلقہ شخص سرکاری راز فاش کرنے یا قومی سلامتی کو لاحق اندیشے کی وجہ  سے کسی سیکورٹی ایجنسی کی حراست میں ہے۔  ناپسندیدہ عناصر کو  منظر سے ہٹانے کی اس حکمت عملی سے بھی ملک میں شدید اختلاف اور کشیدگی کا ماحول پیدا ہؤا ہے۔

اسی  بے چینی کی وجہ سے  جنوری 2018 میں پولیس حراست میں  نوجوان نقیب اللہ محسود کی پراسرار ہلاکت کے بعد  شدید احتجاج سامنے آیا تھا اور پشتون نوجوانوں کی تنظیم  پشتون تحفظ موومنٹ نے جنم لیا۔ پی ٹی ایم  نے  شروع سے قبائلی علاقوں کے  لوگوں کے انسانی حقوق کا احترام  کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے  کہا ہے کہ وہ ملک کے آئین کو مانتے ہیں لیکن پشتون عوام کے ساتھ توہین آمیز سلوک بند کیا جائے ۔ اگر کسی شہری کے خلاف کوئی الزام عائد ہے تو  اس کے خلاف مروجہ قانون کے تحت مقدمہ قائم کرکے اس کا معاملہ مجاز عدالت میں فیصلہ کے لئے پیش کیاجائے۔ پشتون نوجوانوں کی شکایات کو درست ماننے کے باوجود  فوجی حلقے اس تحریک سے وابستہ لوگوں کو مشکوک نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ گو کہ ابھی تک اس تنظیم کے خلاف کوئی باقاعدہ الزام سامنے نہیں آیا اور نہ ہی  اس تنظیم پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن  ابلاغ کے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے یہ تاثر قوی کیا گیا ہے کہ پی ٹی ایم دراصل ملک دشمن عناصر کا آلہ کار ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی  کے سربراہ اختر مینگل نے گزشتہ روز قومی اسمبلی  سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا۔  حکومت سے اختلاف یا مایوسی کا جو بنیادی نکتہ انہوں نے بیان کیا ہے اس میں لاپتہ افراد کا معاملہ سر فہرست ہے۔ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے حکومت کو  5128 لاپتہ افراد کی فہرست دی تھی۔  بیس ماہ کی مدت میں ان میں سے صرف 418 افراد بازیاب ہوئے لیکن اس دوران  مزید پانچ سو کے  لگ بھگ لوگوں کو اٹھا لیا گیا۔   بلوچ لیڈر کا یہ مؤقف بھی  وہی تصویر سامنے لاتا ہے جس کا اظہار پی ٹی ایم کی قیادت  کرتی رہتی ہے۔  2007 کی عدلیہ بحالی تحریک کے بعد  اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری  نے جو خود بھی  بلوچستان سے تعلق رکھتے تھے، لاپتہ افراد کا معاملہ زور شور سے اٹھایا تھا۔ اسی دوران سپریم کورٹ کی ہدایت پر لاپتہ ہونے والے افراد کا سراغ لگانے کے لئے  وزارت داخلہ  نے جسٹس (ر) جاوید اقبال  کی سربراہی میں ایک کمیشن  بھی قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن اپنی کارکردگی کی ماہانہ رپورٹ ضرور سامنے لاتا ہے لیکن جسٹس (ر) جاوید اقبال کو اکتوبر 2017 میں احتساب بیورو کا چئیرمین بھی مقرر کردیا گیا۔ اس وقت سے وہ  دونوں عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ صرف اس ایک طریقہ سے لاپتہ افراد کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی یا لاچاری  کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

بلوچستان کے رہنما شہریوں کو غائب کرنے کے علاوہ   پراسرار ہلاکتوں کو بھی  فوجی اسٹبلشمنٹ سے ناراضی کی اہم وجہ سمجھتے ہیں۔  اسی طرح دیگر طبقوں اور اقلیتی گروہوں کو بھی اپنے  لوگوں کی حفاظت اور حقوق کے حوالے سے پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔  یہ پہلو بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ   ملک میں فوج دشمن عناصر کی بجائے ایسے گروہ اور طبقات موجود ہیں جنہیں  سیکورٹی اداروں کی طرف سے شکایات رہتی ہیں ۔ ان شکایات کو دور کرنے اور ان پر مکالمہ کرنے کی بجائے،  ہمہ قسم  ذرائع کو ایسے گروہوں یا انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کے خلاف  رائے ہموار کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔  خاص طور سے سوشل میڈیا عام ہونے کے  بعد یہ کام مزید آسان ہوگیا ہے۔  اس پر طرہ یہ کہ فوجی ایجنسیوں کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا  پر  متعدد جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ایسے عناصر کے خلاف  مہم جوئی کرتی ہیں اور انہیں ملک و قوم کا دشمن قرار دیا جاتا ہے جو مسلمہ سرکاری پالیسیوں کے  خلاف رائے رکھتے ہیں۔

 لاپتہ افراد  اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے علاوہ پاک فوج  اور اس سے وابستہ اداروں کے بارے کسی قسم کی  تنقیدی رائے  کو روکنے کی تو بھرپور کوشش کی جاتی ہے لیکن فوج اور اس سے وابستہ علامتوں  کی ثنا خوانی اور تعظیم و تکریم کا پرجوش اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں یہ سوال کرنے کی گنجائش بھی نہیں رہتی کہ آخر ہمہ وقت فوج کو بطور ادارہ   غلطیوں سے پاک اور قوم کے محسن کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔  بلاشبہ فوج ملک کا منظم ترین شعبہ ہے اور ملک کے دفاع کے علاوہ متعدد سول معاملات میں اس کی خدمات کا اعتراف بھی ضروری ہے۔ لیکن یہ خدمات بنیادی طور پر فوج کی  آئینی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ اس لئے فطری طور سے سوال پیدا ہوتا ہے  کہ  ملک کے دیگر محکموں کے بارے میں  اسی قسم کی  مدح سرائی کا اہتمام کیوں نہیں کیا جاتا۔  یوں   گھٹن  کا ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جس میں عام شہری خود کو ہمہ وقت فوج   کی تعریف کرنے پر تو مجبور پاتے ہیں لیکن اگر اس کے کسی اقدام  کے بارے میں اختلاف کا اظہار کیا جائے تو غداری یا فوج دشمنی کا الزام عائد ہوتے دیر نہیں لگتی۔

فوج پر کھلے دل سے اظہار خیال کی ضرورت یوں بھی دو چند ہوجاتی ہے کہ اسے ملک کے قومی اور سیاسی معاملات میں  دخل اندازی  کرنے ، فیصلوں پر اثرانداز ہونے اور  قومی سلامتی سے لے کر خارجہ اور مالی امور تک میں  رائے دینے اور اس پر عمل کروانے کا “حق حاصل ہے”۔ ملک کی پارلیمنٹ بھی فوج کی رائے سے اختلاف کرنے کا حوصلہ نہیں کرتی کیوں ملک میں  سیاسی بت تراشنے کا سارا کام فوج سے منسلک ادارے ہی سرانجام دیتے ہیں۔ اسی طرح   قومی اسمبلی یا سینیٹ کا کوئی رکن فوجی بجٹ کے بارے میں اعتراض کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتا کیوں کہ اسے ایک تو غداری  شمار کیاجائے گا دوسرے ایسے کسی سیاسی لیڈر کو مستقبل کے کسی لین دین میں حصہ دار بننے کا موقع نہیں ملے گا۔

تصویر بالکل واضح ہے۔  فوج اگر سیاسی  معاملات میں مداخلت کرنے کا “حق”  برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنے فیصلوں پر تنقید سننے اور بعض پہلوؤں سے اختلاف  برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا  ہوگا۔  کسی بھی معاشرے میں  جس طاقت کو بھی  فیصلے کرنے اور لوگوں کی تقدیر بنانے بگاڑنے کا اختیار حاصل ہوگا ، اس کے اقدامات کے بارے میں اختلاف رائے بھی فطری ہوگا۔ فوج اگر  بوجوہ سیاسی معاملات میں مداخلت کا طریقہ تبدیل نہیں کرسکتی تو اسے  اپنے فیصلوں پر تنقید سننے کی گنجائش  پیدا کرنا ہوگی۔ ورنہ معاشرہ میں پیدا ہونے والی ناراضی اور گھٹن خطرناک صورت بھی اختیار کرسکتی ہے۔

پاک فوج کا کردار محض   ملکی دفاع یا سلامتی و خارجہ امور کے فیصلوں  پر اثر انداز  ہونے تک محدود  نہیں رہا ۔ متعدد فوجی ادارے ملکی معیشت کے بڑے حصے پر قابض ہیں۔ ملک میں فوج سے وابستہ ادارے ہاؤسنگ، تعمیرات ، صنعتی پیداوارسے لے کر شادی ہال چلانے اور کیٹرنگ تک کا انتظام کررہے ہیں۔  اس حوالے سے عائشہ صدیقہ نے 2007 میں اپنی کتاب ملٹری انک   میں تفصیل سے اظہار خیال کیا تھا ۔   ایک لحاظ سے یہ ایک مثبت قدم تھا۔ جب ملک کا سب سے مؤثر ادارہ  عملی معاشی سرگرمیوں میں ملوث ہو تو اس کے اثرات  پر   کھل کر گفتگو کرنے سے  غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ عائشہ صدیقہ سمیت کوئی بھی محقق  کسی بھی معاملہ کی مکمل تصویر پیش نہیں کرسکتا۔ اس لئے    ایک  اہم معاملہ پر  تحقیق کا خیر مقدم کرکے  اس پر مزید کام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس کے برعکس عائشہ صدیقہ کی تحقیق اور مؤقف کو ملک دشمنی پر محمول  کیا گیا۔  اس طرح مزید گفتگو کرنے اور اور اس بارے میں  عام طور سے پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کا اہتمام نہیں  ہوسکا۔ آئی ایس پی آر نے ضرور  کتاب کے بعض حقائق کو مسترد کرنے کے  لئے ایک پمفلٹ شائع کیالیکن مزید تحقیق  کا راستہ ہموار نہیں ہؤا۔

ملک میں کوئی  بھی فوج کا دشمن نہیں ہوسکتا اور یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایسے کچھ عناصر موجود ہیں تو ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ تاہم جب فوج سیاست، معیشت اور سلامتی میں یکساں طور سے شریک ہو گی تو اس کے کردار اور فیصلوں کے بارے میں اختلاف رائے بھی سامنے آئے گا۔ اس اختلاف کو فوج سے دشمنی قرار نہیں دیا جاسکتا۔     علاقائی  یا گروہی حقوق کی جد و جہد کو مہذب معاشروں کی طرح پنپنے کا موقع دے کر ہی جمہوری رویوں اور سماج میں برداشت اور قبولیت کا  ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے دو دہائیوں تک جس دہشت گردی کا سامنا کیا ہے، اس کی بنیاد بھی عدم برداشت اور اپنی رائے مسلط کرنے کے مزاج پر ہی رکھی گئی تھی۔

ملک کے حکمرانوں اور فوجی قیادت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے آئینی کردار کی توجیہ کرسکیں اور اپنے اقدامات کو قوم و ملک کے مفادات میں سمجھتے ہوئے ان پر عمل درآمد پر اصرار کریں ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ان فیصلوں سے اختلاف  اور متبادل رائے پیش کرنے کا مساوی موقع بھی فراہم کرنا پڑے گا۔ رائے کے اظہار کو غداری اور وطن دشمنی  کہنے سے رائے تو تبدیل نہیں ہوگی لیکن اس سے پیدا ہونے والا مجبوری کا احساس ملک  کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments