دنیائے کرونا اور جرموفوبیا


لوث ترسی، میسوفوبیا، جرموفوبیا، بیسیلو فوبیا، ورمینو فوبیا یا جرمو فوبیا سب ایک ہی نفسیاتی مرض کے منفرد نام ہیں۔ یہ ایسے دماغی خلجان کو کہا جاتا ہے جس سے متاثرہ شخص ہر وقت صفائی ستھرائی میں ہی مگن رہتا ہے یعنی کہ جرمو فوب ہر وقت اپنے ہاتھ منہ اور جسم کو مکمل طور پر گندگی، غلاظت سے محفوظ رکھنے کی تگ و دو میں گم سا ہو۔ یہ سننے میں جس قدر بھیانک لگ رہا ہے اس قدر ہے نہیں۔ فکر مت کیجئے گا یہ مرض جان لیوا ہر گز نہیں ہے۔ بس یوں کہئیے کہ دماغی فتور کا نام ہے، یہ فتور بھی مہلک نہیں جو کسی دوسرے فرد کو حزیں دے، بس یہ تو متاثرہ شخص کے ذہن کو پاکی ناپاکی کی الجھنوں میں ہی الجھائے رکھتا ہے۔

لوث ترسی میں مبتلا ایسے لوگ گھومتے پھرتے لوگ بس اپنے ہی اندر گھٹتے بھی ہیں اور مرتے بھی۔ دماغی مرض بڑھ جائے تو انسان کو تکلیف دینا شروع کر دیتا ہے مگر یہ انسان کی دماغی قوت ہی ہے جو اس کو حدود میں رکھ سکتی ہے۔ یہ خلش جو نفسیات کے گھن چکروں میں جنم لیتی ہے ایسا ممکن ہے کہ کسی قریبی کو دیکھ دیکھ کر آپ تک منتقل ہوئی ہو۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ جیسے رنگ پکڑتا ہے جو پرائیمیٹس کی میراث بھی ہے، چونکہ ہم پرائیمیٹ ٹھہرے تو رویوں کی نقل کرنا ہمارا خاصا ہوا۔ لوث ترسی کے مرض میں مبتلا ہونا کسی کے رویہ کی نقل بھی ہو سکتا ہے۔ یقین کیجئے ابھی بھی خطرے کی کوئی بات نہیں۔

ایسے لوگوں کو اکثر دوست احباب مغرور کہتے ہیں کیونکہ گندگی اور جراثیم سے کوسوں دور بھاگتے یہ لوگ کسی کے گھر کا کھانا نوش کرنا پسند نہیں کرتے۔ اپ نے سنا ہوگا کہتے ہوئے کہ کیسی مغرور ہے، پتا نہیں کس چیز کا گھمنڈ ہے ہمارے گھر کا کھانا نہیں کھاتی۔ یقین کیجئے کہ ایسی جرموفوب خاتون نے ان کے یہاں کچھ ایسا ہوتے دیکھا ہوگا جب کھانا بناتے سجاتے وقت صفائی کا دھیان نہیں رکھا گیا جبھی تو وہ ان کے گھر کا کچھ کھاتی پیتی نہیں ورنہ ایسی تو کوئی بھی بات نہیں۔

اسکے علاوہ جرموفوب مصافحوں یا بغل گیری پر بھی اتنا یقین نہیں رکھتے۔ بس حضرت دور دور سے مل لیا کافی ہے، آپ زندہ ہیں ہم تو اسی میں خوش ہیں کا سا مقصد لئے جیتے ہیں۔

عید، شب برات، گیارہویں، ستائیسویں کے ختم کے چاول اور حلیم جو پڑوسیوں، رشتہ داروں کے گھر سے آتے ہوں چاہے کتنے ہی لذیذ یا خوشبو دار کیوں نہ ہو یہ لوگ ذرا چکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ایسے خاص مواقع پر ان کے بہن بھائی خاصے مزے میں رہتے ہیں جن کو ان کے حصے کا بھی کھانے کو مل جاتا ہے۔ جرمو فوب لوگ باہر کھانا بھی نہیں کھاتے خاص طور پر ڈھابوں اور سڑک کناروں پر، اکثر یہ دوستوں کا خالی بیٹھ کر منہ ہی تکتے ہیں کچھ تو اس قدر نازک مزاج واقع ہوتے کہ منہ پر رومال رکھے بس دراز رہتے ہیں۔ پھر ان کی عدم موجودگی میں دوست اقربا خوب ٹھٹھا بھی لگاتے ہیں اور پھر موج مستی میں ان کے انداز و بیاں کی نقل اتار اتار کر سب کو بہلاتے ہیں۔

جرمو فوبز کی ایک اور خوبی یہ رہتی ہے کہ ذرا کوئی ان کے کھانے پر گفتگو کر دے مطلب ان کے کھانے پانی کے قریب بات بھی کردے تو سمجھئے ان کا کھانا حلال ہوتے ہوئے بھی حرام ہوجاتا ہے۔ کھانا سنک کی زینت بنتا ہے تو پانی گملے کی۔ ساتھ میں خدارا کوئی بھٹکا ہوا انسان ان کے پاس چھینکنے یا یا کھانسنے کی حماقت کر دے تو سمجھئے حشر برپا ہوگیا۔ سردیوں میں ایسے واقعات تو مجرمانہ ہوئے یہاں کوئی ان کے منہ پر چھینکا یا کھانسا نہیں وہاں غسل واجب۔

لڑکیوں کے بیگ میں فیس واش، ہینڈ سینی ٹائزر ہمہ وقت موجود رہتا ہے تو لڑکے یہ سامان صفائی اپنی پتلون کی بڑی بڑی جیبوں میں لئے پھرتے ہیں۔

جب سے کرونا وائرس کے خلاف حفاظتی تدابیر لینے کی سخت تنبیہ کی گئی ہے، تب سے جرمو فوب انسانوں کی زندگیوں میں جیسے بہار آ گئی ہو، ہر طرف خوشحالی اور سلامتی کا دور ہو۔ امن کی نہیں مگر صفائی کی فاختائیں بولتی ہوں، سماجی اور جسمانی دوری کی کوئلیں کوکتی ہوں۔ جب سے کھانسنے، چھینکنے پر سرکاری طور پر خاموش پابندی عائد ہوئی ہے اور ہر کوئی منہ ہاتھ بار بار دھونے پر مجبور سا ہوگیا ہے وہاں یہ لوگ میٹھی نیند سو رہے ہیں۔

یہ تو پہلے بھی دن میں کئی بار ہاتھ پیر منہ صابن سے اچھی طرح دھوتے تھے۔ ان کے منہ کے قریب کوئی بات کر سکتا ہے نہ ہی لمبی تعفن زدہ آہ بھر سکتا ہے، کوئی بھرے بھی تو فیس ماسک کے سپاہی سرحد پر باڑ لگائے ہمہ وقت کھڑے ہوں۔ فیس ماسک تو جیسے آسماں سے فرشتے لے کر اترے ہوں، فیس ماسک نہ ہوئے خدائی نصرت وارد ہوئی ہو۔ اب کوئی ہاتھ ملانے کی ناپاک کوشش کر سکتا ہے نہ ہی گلے ملنے کے عزائم رکھتا ہے۔ سب چھ چھ فٹ دور پر رہنے پر مضر ہیں۔

دنیا ہر وقت حفظان صحت کے اصولوں پر کار بند ہوتی نظر آ رہی ہے، وہیں ان کے لئے یہ عام سی بات ہے۔ جو دوست، کولیگز ان کے سینی ٹائزرز کے استعمال پر تعجب بھری نظروں سے دیکھ کر پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کے ساتھ تالی بجاتے تھے آج وہی لوگ سینی ٹائزر کی ناپیدی اور مہنگے داموں بکنے پر سرکار اور کمپنیوں سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ تو پہلے بھی باہر ہاتھ سے دروازے کھولتے تھے نہ فرج، اب جبکہ سب ٹانگوں اور کہنیوں کا استعمال موثر سمجھتے ہیں تو یہ لوگ ان لوگوں پر ہنستے ہیں جو قبل از کرونا دنیا میں ان پر ہنسا کرتے تھے۔ جرمو فوب لوگوں کی تو ہر روز عید اور رات شب برات ہوتی ہے۔ جرمو فوب سوال کرتے ہیں کہ بتائیے اب کون ہنس رہا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments