جان لیوا کورونا اور ہمارا معاشرتی رویہ


کورونا کی دہشت اور وحشت، تاحال نہ صرف قائم ہے بلکہ دنیا بھر کے مختلف خطوں میں اس کے سبز پاؤں، پوری شدت سے اپنی چھاپ ثبت کیے جا رہے ہیں۔ انسانوں سے اس کی پنجہ آزمائی مختلف سطح پر جاری و ساری ہے۔ ماہرین اور محققین ابھی تک یہ اندازہ لگانے سے یکسر قاصر ہیں کہ اس کا یہ زور، کب کمزور ہو گا اور انسان کب اس کے دائرہ اثر سے مکمل نجات حاصل کر پا ئے گا۔ اس آزادی کے لئے انسانوں کو ابھی کتنے جتن اور کرنے ہوں گے، اورکن کن مراحل سے گزرنا ہو گا، اس بارے میں کسی قسم کی کوئی حتمی بات، سائنسی لحاظ سے ترقی یافتہ کسی بھی ملک کی طرف سے نہیں کی گئی۔

گویا یہ بلا، ہزاروں لاکھوں معصوم انسانوں کو نگلنے کے بعد بھی، ابھی مزید کتنے اور انسانی وجود کو نوالہ بنائے گی، یہ انسانی وہم و گمان سے بعید از قیاس ہے۔

ان گنت انسانوں کا، اس بلا کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہونا، انسانی تاریخ کا ایسا المیہ ہے، جس پر آنے والے دنوں میں، نہ جانے کب تک ماتم کیا جائے گا اور آنکھیں اشکبار رہیں گی۔ کورونا کے زخم کسی ایک ملک، مذہب، قوم، اور نسل تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہر خطے سے تعلق رکھنے والے، ہر انسان کا سانجھا دکھ ہے۔ اس آفت نے دنیا بھر میں، انسانی بے بسی اور لاچارگی کی وہ کہانیاں رقم کی ہیں، جو پتھر دل کو بھی آبدیدہ کر دیں۔

شاید ایسی ہی وہ آفات ہیں، جنہیں ہم روزمرہ کی زبان میں قیامت، صغرہ کہتے ہیں مگر ان حالات میں ہمارے معاشرے کی جو تصویر سامنے آ رہی ہے وہ انتہائی افسوسناک بھی ہے اور شرمناک بھی۔ صورت حال کا منطقی حاصل تو یہ تھا کہ انسانیت، صلہ رحمی، برد باری اور خوش خلقی کا مظا ہرہ ہوتا اور اپنی خود ساختہ عظمت کے جو نعرے، مختلف اوقات میں، انفرادی سطح پر اور مختلف اجتماعات سے، بارہا بلند کیے جاتے ہیں، ان کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا اور دوسرے معاشروں کے سامنے خود کو مثال کے طور پر لایا جاتا، مگر پیش منظر جو کچھ ہے، وہ محض اخلاقی زوال اور انحطاط کے سوا کچھ نہیں۔

حرص و ہوس اور شقیق القلبی کی وہ وہ داستانیں سینہ بہ سینہ گردش میں ہیں، جنہیں دل تسلیم کرنے کو، آمادہ نہیں، مگر لالچ کا یہ گھناؤنا عمل، معا شرے میں جگہ جگہ ا س تواتر کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے کہ اب یہ بدنامی زبان زد، عام ہے۔

اور تمام باتوں سے قطع نظر، معاشرتی گراوٹ کی انتہا اور کیا ہو گی جب کسی قریب المرگ سے بھی پلازما کا بھاؤ تاؤ کیا جائے۔ انسانی زندگی کا سودا کرنے والے یہ بھیانک چہرے، کیا انسان بھی کہلانے کے مستحق ہیں!

بدلتے اور نئے حا لات میں، زندہ اور ترقی پسند معاشرے، زما نے کے مطابق اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ وسیع القلبی اپناتے ہیں، رواداری کو شعار بناتے ہیں، انسانیت کو اولین ترجیح دیتے ہیں، مگر ہمارا معاشرتی رویہ بتا رہا ہے کہ ہم اپنے دائرے سے نکلنے کو تیار نہیں۔ ہم اسی کم تر سطح پر منجمد رہنا چاہتے ہیں جسے ہم بہ زعم خود اخلاقیات کی اعلی ترین سطح قرار دینے پر بضد ہیں، جبکہ اس کی حقیقی شکل ایک با پھر، موجودہ حالات میں پوری طرح عریاں ہو چکی ہے۔

اس قسم کی انتہائی آزمائشی صورت حال میں بھی تفریق اور تقسیم کے جن تصورات سے لگاؤ کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ سر دست تشویشناک تو ہے ہی، مگر مستقبل کی خطرناک سمت کو بھی واضح کر رہا ہے۔

عصر حاضر کا تقاضا ہے ( اور اس آفت نے، شاید اس کی تجدید اور تائید کی ہے ) کہ انسانوں سے رشتے انسانی بنیاد پر ہونے چاہیں، کسی اور پہلو سے اثر انداز ہوئے بغیر! یہی وہ قدر مشترک ہے جو سماجی بین العمل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

برابری اور کشادہ دلی کے جز بات کے بغیر انسانی رشتے نہ انفرادی سطح پر فروغ پاتے ہیں اور نہ ہی اجتماعی سطح پر۔ اور یہی معیار قوموں کے درمیان باہمی ربط کو فروغ دینے کے لئے، بنیاد بنتا ہے۔ ہمیں بھی اب دوسروں کو سمجھنے اور اپنے قریب لانے کے لئے، وہ ہی راستہ اختیار کرنا ہو گا جو دلوں سے گزر کر، دلوں میں جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments