گلگت بلتستان کی انتخابی سیاست کا مذہبی بیانیہ


غالباً ایک ہفتے بعد گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی اپنی مدت پوری کر کے رخصت ہو رہی ہے لہذا نگران سیٹ اپ کا غلغلہ بلند سے بلند ہوتا جا رہا ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ اور کابینہ کے لئے سوشل میڈیا میں ایک ریس جاری ہے کوئی لکھ رہا ہے کہ فلاں صاحب میں تمام اوصاف حمیدہ پائے جاتے ہیں جو کہ ایک شفاف منتظم کے لئے درکار ہے تو کوئی ہا ہا کار مچا رہا ہے کہ فلاں صاحب تو اطوار و اخلاق سے مزین اسی کام کے لئے روئے زمین میں تشریف لا چکے ہیں۔

غرض ہر قسم کے شہ بالے متوقع دلہا کی خوبیاں بیان کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اصولاً دیکھا جائے اس کام کے لئے تو موجودہ وزیر اعلیٰ اور قائد حزف اختلاف کی باہمی مشاورت پر وزیر امور کشمیر کی رائے شامل ہوتی ہے کہ نگران سیٹ اپ کا مالک کون ہوگا مگر ہماری بیچاری اسمبلی اور اس کے رول اف پروسیجر کو کون سنتا ہے۔ خود موجودہ وزیر اعلیٰ دھائی دے رہے ہیں کہ وفاق اپنی مرضی کر رہا ہے تو ایسے میں بلا قائد حزب اختلاف کو کون پوچھتا ہے گر چہ قانونی تقاضا تو یہی ہے۔

لیکن اس رسہ کشی سے قطع نظر دو تحریری مطالبات منظر عام پر آئے ہیں جو گلگت بلتستان کی سیاسی فضا کے درجہ حرارت کو بڑھانے میں اہم ثابت ہوں گے اور یہ آنے والے دنوں میں خطرناک موسم کی نشاندھی کرتے ہے۔ انجمن امامیہ گلگت کے سیکرٹری کے دستخط سے ایک بیان جاری ہوا ہے کہ ”شاھد اللہ بیگ“ جن کا متوقع نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر نام لیا جا رہا ہے، ملت تشیع کو قابل قبول نہی کیونک ان کا ماضی کچھ داغدار ہے۔ اس پر انجمن اہلسنت گلگت کہاں خاموش رہتی ان کے جنرل سیکرٹری کے دستخط سے بیان آ یا ہے کہ انجمن امامیہ اور ان کا لیڈر مذہبی منافرت کو ہوا دے رہے ہیں اور اگر ان کی سنی گئی تو ہم خاموش نہی رہیں گے۔ یہ تو تھا خلاصہ ان بیانات کا لیکن گلگت بلتستان کی سیاست میں مذہبی اثر، بیانیہ اور مداخلت کو سمجھنے کے لئے ہمیں کچھ ماضی میں جھانکنا ہوگا۔

جنرل ضیاء الحق نے جب پاکستان کے عوام کی مقبول لیڈرشپ کو معزول کر کے تختہ دار پر پہنچایا تو ملک میں بہت بڑا سیاسی خلا پیدا ہوا۔ اس کو پاٹنے کے لئے ضیاء الحق نے مذہبی جماعتوں کے کاندھوں کا سہارا لیا اور نظام مصطفیٰ کا شوشہ چھوڑا۔ اس مقصد کے لئے ملک کے کونے کونے س چھوٹے، بڑے مولویوں کو پروٹوکول اور اقتدار کا طمع دلایا گیا۔ یوں وہ مذہبی ادارے جو اخلاقی اور اصلاح معاشرہ کا کام کرنے میں مگن تھے انھوں نے پولیٹیکل اسلام کی بندوق اٹھائی اور باقی اگے تاریخ ہے۔

گلگت بلتستان بھی اس عذاب سے نہ بچ سکا، 1988 میں یہاں ایک خون ریز مقابلہ ہوا جس میں درجنوں لوگ بے موت مارے گئے جب گلگت بلتستان میں لشکر کشی ہوئی۔ اس وقت ضیاء الحق ملک میں جبر کی حکومت چلا رہے تھے اور واقفان حال کا کہنا ہے کہ جنرل کی آشیر باد سے یہ سب کچھ ہوا۔ چونکہ ملک میں کوئی فیکٹ فائنڈنگ اور حقائق شائع کرنے کا رواج نہی اس لئے اس سانحہ کے بھی محرکات اور ذمہ داروں کا تعین نہ ہوسکا۔

یہی سے گلگت بلتستان میں سیاست مذہب کے سانچوں میں تقسیم ہوگئی اور ہر طبقہ فکر نے یہ سمجھا کہ بقا اور تحفظ تو صرف پاور سٹرکچر میں شامل ہونے سے ہے چاہے مذہب کا کندھا ہی کیوں نہ استعمال ہو۔ 1991 ء کے الیکشن میں گلگت کے ایک حلقہ میں ردوبدل کا شور اٹھا اور گلگت بلتستان میں ایک مکتبہ فکر کی طرف سے الیکشن کے بائکاٹ کا اعلان ہوا۔ احتجاج کرنے والوں کا موقف تھا کہ ریاستی مشینری زبردستی اسے اقدامات اٹھا رہی ہے جس سے علاقے میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے جبکہ حکومتی موقف تھا کہ حلقہ بندی میں ردوبدل ایک انتظامی ایشو ہے۔ اس الیکشن میں مسلکی دست و بازو دکھانے کے لئے بڑا زور ڈالا گیا یہاں تک کہ معتدل سیاستدانوں نے بھی اپنا وزن اپنے اپنے مسلکی ترازو پر رکھا تاکہ مذہبی جذبات کو اپنے حق میں کیش کر سکے۔

اس الیکشن کے بعد سے گلگت بلتستان کے مسائل خواہ وہ انتظامی ہوں یا ترقیاتی، ائینی حقوق کی بات ہو یا کوئی اور ہر ایک پر گلگت بلتستان کا موقف بٹا رہا اور اسے مسلکی عینک سے دیکھنے کی روش عام ہوئی۔ 1994 ء میں وفاقی نگران حکومت نے جو جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرائے تاہم اس میں بھی مذہبی جماعتوں اور ان کے حامیوں کا موقف غالب رہا۔ اس الیکشن میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، جمیت علماء اسلام پاکستان، سپاہ صحابہ، جماعت اسلامی بڑے دم خم کے ساتھ میدان میں اتری اور اپنے اپنے مذہبی بیانیہ کو لے کر الیکشن میں گرمی پیدا کر گئیں۔

اس کے بعد 1999 ء کے انتخابات تو خوب رہے اس دوران بھی مذہبی بیانیہ غالب رہا چونکہ خطے کی اکثریت دیہاتوں اور گاؤں میں مقیم تھی اس لئے ان کے مذہبی جذبات کو ابھارنے کے لئے religious symbols کو اپنی تقریروں اور تشہیری مہم کا بڑا حصہ بنالیا گیا۔ دوسری جانب قومی سطح کی سیاسی پارٹیوں نے ہاتھ پیر خوب مارے مگر مذہبی جذبات کا ابھار اس قدر تھا کہ ان کی نہ چلی اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے اپنی حکومت بنالی۔ اس الیکشن میں خاص طور پر گلگت اور بلتستان میں سماجی فضا بڑی مکدر رہی اور مذہبی بیانہ سے اختلاف کرنے والوں پر زمین سخت کر دی گئی تھی۔

2004 ء کے الیکشن خاص اس لئے تھے کہ جنرل مشرف اقتدار میں تھے تو انھوں نے تحریک جعفریہ اور سپاہ صحابہ پر پابندی عائد کر دی یوں اس آئیڈیالوجی سے منسلک امیدوران نے بطور آزاد یا مشرف کی پشت پناہ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اقتدار کی سیڑھیاں چڑ گئے۔ موجودہ اسمبلی کے الیکشن کے دوران بھی مذہبی جماعتوں نے بھر پور حصہ لیا جن میں جمعیت علمائے اسلام، تحریک جعفریہ اور وحدت مسلمین نمایاں تھیں۔ گو کہ ان جماعتوں نے کوئی قابل ذکر نشتیں نہیں جیتی مگر بڑے اپ سیٹ ضرور کرائے اور مذہبی جذبات کو خوب بھڑکایا۔ مذہبی جماعتوں کا پولیٹیکل سسٹم کو تسلیم کرتے ہوئے مین سٹریم سیاست میں آنا اچھی علامت ہے مگر ڈویلپمنٹ، پالیسیز، قانون سازی اور ترقی و تبادلوں کو مسلکی فریم سے دیکھنے کی روش بہت خطرناک ثابت ہوگی۔ اب پھر سے نئے الیکشن سر پہ ہیں دیکھتے ہیں کہ کیا نئے نعرے لگائے جاتے ہیں اور فضا کتنی مکدر رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments