پاکستان کے جارج فلوئیڈ کا دم گھٹ رہا ہے


پیارے جارج فلوئیڈ تم ایک سیاہ فام امریکی تھے۔ سٹور پر 20 ڈالر کا جعلی نوٹ استعمال کرتے ہوئے بھول گئے کہ دھر لئے جاؤ گے۔ ریاست کی پولیس نے تمہیں آن دبوچا اور تم زمین پر منہ کے بل چت پڑے تھے۔ تمہاری گردن پر ریاست کا گھٹنا تھا جس کا دباﺅ بڑھتا جا رہا تھا۔ تمہارا منہ زمین میں دھنسا ہوا تھا۔ تمہاری آنکھیں باہر ابل رہی تھیں۔ زمین کے ساتھ رگڑتی ناک اور اُس پر مسلسل دباؤ نے سانس لینے کے لئے ہوا کا راستہ بند کر دیا تھا۔ تم نے کہا ’میرا دم گھٹ رہا ہے ‘ اور پھر تمہارا دم نکل گیا۔ بس چند لمحوں کا دباؤ گردن پر برداشت نہیں ہوا مسٹر جارج۔ اتنے نازک اندام۔ ہم نے تو سیاہ فام مخلوق کی سخت جانی کے قصے سن رکھے ہیں۔

 تمہاری دنیا سے دوسری طرف ایک ملک پاکستان ہے جس کا میں نچلے درجے کا شہری ہوں۔ نچلے درجے سے میری مراد غیر مسلم شہری ہے۔ سمجھو کہ ہم پاکستان کے ’جارج فلوئیڈ ‘ ہیں۔ زمین پر اوندھے منہ پڑے ہونے، منہ اور ناک میں گھسی ہوئی مٹی کے ساتھ گردن پر طاقت ور کے گھٹنے کے مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ کی کیفیت سے ہم سے زیاد ہ کون آشنا ہو گا۔ یوں کہ ہم گذشتہ پون صدی سے اسی کیفیت میں بظاہر زندہ ہیں۔ زندہ اِس لئے کہ ابھی سانس کی آمدورفت جاری ہے۔

 1949ء میں قرار داد مقاصد کا گھٹنا ہماری گردن پر رکھا گیا تو اِس دباﺅ نے ہمار ی سانسیں بند کرنے کے عمل کی ابتدا کی۔ ستر کی دہائی میں اسکو ل کی درسی کتب سے ہمیں خارج کر کے ہماری گردن پر بیگانے پن کا گھٹنا دھر دیا گیا۔ اسی دوران اسکولوں میں اسلامیات کو لازمی مضمون قرار دے کر ہماری گردن پر دباؤ اور بڑھا دیا گیا۔

جارج فلوئیڈ تم کیا جانو گردن پر دباؤ کیا ہوتا ہے اور دم گھٹنا کس بلا کا نام ہے۔ جب تمہاری 14سالہ بیٹی” ہما“ کو کراچی سے اغوا کر لیا جائے۔ پولیس تمہاری داد رسی کرنے کی بجائے صبر کرنے کی تلقین کرتے ہوئے بتائے کہ 14سالہ کم سن بیٹی نے خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے نکاح کر لیا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ کسی نے تمہاری گردن پر ٹنوں وزنی گھٹنا رکھ دیا گیا ہو۔ علاوہ ازیں جب 18 سال سے کم عمر بچے کے نکاح کی ممانعت کے ریا ست کے قانون کو نظر انداز کر کے سندھ ہائی کورٹ شریعت کا سہارا لے کر یہ فیصلہ دے کہ لڑکی اپنی پہلی ماہواری سے بالغ تصور کی جاتی ہے چنانچہ اغوا، جبری قبول اسلام اور جبری نکاح جائز قرار پاتا ہے تو گردن پر اس عدالتی گھٹنے کا دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔

جارج فلوئیڈ تمہیں کیا معلوم گھٹن کس بلا کا نام ہے۔ جب ریاست ایک صدی پرانے چرچ کے تعلیمی ادارے پر قبضہ کر لے تو جانو پوری مسیحی برادری کی گردن پر جبر کے شکنجے میں آ گئی ہو۔ ایسی صورت میں یہ آواز بھی نہیں نکل پاتی ” میرا دم گھٹ رہا ہے“۔

تم خوش قسمت ہو۔ تم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے تھے جہاں تمہاری سخت جانی اب مفقود ہو چکی ہے۔ اب تم لوگ دیگر امریکیوں کی مانند نازک مزاج ہو۔ تمہار ے ہونٹوں سے ادا ہونے والے یہ الفاظ ”میرا دم گھٹ رہا ہے“ پورے امریکہ میں سُنے گئے۔ پھر چشم تماشا نے دیکھا کہ تمہاری آواز پر امریکہ سمیت دنیا بھر کے لوگ متحرک ہو گئے۔ لاکھوں کی تعداد میں تمہاری آواز کا جواب دینے والے انسانوں میں سفید اور سیاہ فام لوگ بلا تفریق رنگ و مذہب شامل تھے۔ اِن مظاہروں نے امریکی صدر کو پولیس اصلاحات کے قانون پر دستخط کرنے پر مجبور کر دیا (یہاں خود اصلاحات تیار کر کے دبا لی گئی ہیں)۔

ہماری سخت جانی دیکھو۔ ہماری گردن پر جبر کا گھٹنا تھا تو بھی ہم نے ہسپتال تعمیر کئے، تعلیمی ادارے بنائے۔ ہمارا سانس گھٹ رہا تھا مگر ہم نے پاکستان میں کوڑھیوں کو زندگی عطا کی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں پر قبضہ کر کے ہماری سانسیں بند کر دی گئیں تو بھی ہم تعلیمی ادارے قائم کرنے کی خدمت سے دستبردار نہیں ہوئے۔

تمہیں کیا معلوم اکسویں صدی کے دوسرے عشرے میں بھی پاکستان میں جب خاکروب کے لئے صرف غیر مسلم کو بھرتی کرنے کا اشتہار دیا جاتا ہے تو ہماری گردن پر کتنا بوجھ پڑتا ہے۔ اور جب ارباب اختیار اِس کو مذہبی امتیاز اور تعصب کی بجائے مذہبی اقلیتوں پر ایک احسان تصور کرتے ہیں تو گمان ہوتا ہے کہ ہمارا منہ زمین میں دھنسا ہوا ہے، ناک اور منہ میں مٹی گھسی ہے اور سانس رک رہا ہے۔

تمہارے ساتھ نسلی امتیاز کے خاتمے میں خود گورے شہری تمہارے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ اور دنیا نے دیکھا کہ امریکی عوام نے ایک سیاہ فام امریکی ”اوباما “ کو امریکی صدر منتخب کر لیا تھا۔۔ ہمارے ہاں تو ریاست نے ایک دستوری گھٹنا ہماری گردن پر رکھتے ہوئے ہمیں ریاست کا سربراہ یا وزیر اعظم ہونے سے نا اہل کر رکھا ہے۔

 شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کے اندراج کا فیصلہ اور جداگانہ انتخابات جیسے بوجھ سے آزادی ہم نے روشن خیال مسلمان شہریوں کی حمایت سے حاصل کی ہے جس نے ہمیں سانس لینے کی گنجائش مہیا کی ہے۔ آج غیرمسلم شہری جن کا منہ زمین میں دھنسا ہوا ہے اور اپنی گردن پر شدید دباؤ محسوس کرتے ہوئے پکار رہے ہیں ” ہمارا دم گھٹ رہا ہے“۔ آج بعض لوگوں کو یہ آواز سنائی دے رہی ہے لیکن آنے والے وقت میں یہ آواز سارے پاکستان میں سنائی دے گی۔ ہم مارٹن لوتھر کنگ کی طرح خوش گمان ہیں کہ ایک روز یہ سارے بوجھ ہم اپنی گردن سے مسلمان ہم وطن شہریوں کی مدد سے اتار پھینکیں گے۔ شاید یہ ہماری زندگی میں ممکن نہ ہو مگر مارٹن لوتھر کنگ کے الفاظ جو ہمارے ہی ہیں، جو ہر آزاد فرد کے ہیں، ضرور ہمارے ہاں بھی شرمندہ تعبیر ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments