آن لائن کلاسز اور حکومتی اقدامات


کرونا وائرس حقیقتاً ایک ایسی وبا ہے جس نے سائنس اور اور ٹیکنالوجی کے نظام پر ایک سوالیہ نشان لگادیا۔ لیکن شاید آنے والے کچھ عرصے میں یہ وبا بھی اس جہان فانی سے رخصت ہو جائے لیکن اس کے اثرات انسانی زندگی پر ایک لمبے عرصے تک اثر انداز ہوتے رہیں گے۔ ۔ جہاں پوری دنیا میں معیشت کا پہیہ بری طرح جام ہو چکا ہے وہیں پر ایک اور محکمہ جو بری طرح اس کی زد میں آ گیا وہ تھے ہمارے تعلیمی ادارے، جی ہاں وہی تعلیمی ادارے جہاں پر پاکستان کے مستقبل کے کے کامیاب ترین ڈاکٹرز اور انجینئرز کو بنایا جانا تھا وہیں کرو نا نامی اس دہشت گرد نے نمودار ہونے کے بعد ان تعلیمی اداروں کے اپنے مستقبل کو ہولناک بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

آج گورنمنٹ اور وہ تمام والدین جو ان تعلیمی اداروں کو صرف پیسے بنانے کی فیکٹری سمجھ کر بند کرنے کی حمایت کرتے ہیں اور مافیا سمجھ کر مختلف طرح کی باتیں کی جاتی ہیں وہ شاید یہ بات بھول بیٹھے ہیں کہ انہیں تعلیمی اداروں میں وہ اپنے بچوں کو تعلیم اور تربیت کے لیے بھیجتے ہیں۔ میں ہرگز اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ حکومتی ادارے اس وبا کے دوران ان تعلیمی اداروں کو کھول دیں اور میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ بچے اور اساتذہ جو اس ملک کا مستقبل ہیں ان کی زندگی کو کسی قسم کے خطرے میں مبتلا کر دیا جائے۔

لیکن میری مخالفت کی وجہ وہ تمام اقدامات ہیں جو اس وائرس کے پھیلنے کے بعد گئے جہاں پوری دنیا آن لائن کلاسز کی طرف عرصہ دراز پہلے رخ کر چکی تھی ہم شاید اسی کبوتر کی طرح اپنا منہ چھپائے بیٹھے تھے کہ شاید ہم آنکھیں بند کریں گے تو ہمیں بلی نہیں کھائے گی لیکن بالکل اسی بلی کی طرح جیسے وہ کبوتر پر حملہ آور ہوتی ہے ہمارے اوپر کرونا وائرس جیسی وبا حملہ آور ہو گئی اور ہم جو اس کبوتر کی مانند اپنی آنکھیں تعلیمی نظام میں جدت اور آن لائن کلاس سے چھپائے بیٹھے تھے اس کو اختیار کرنا ہماری مجبوری بن گئی۔

خیر دیر آئے درست آئے پاکستان میں آن لائن کلاسز کا اجراء کر دیا گیا۔ لیکن افسوس کچھ فیصلوں کو بند کمروں کے اندر بیٹھ کر تو کر لیا گیا لیکن اس کے لیے مناسب لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا اور نتیجتاً لاکھوں جو اس قوم کا مستقبل تھے اس قوم کا معمار تھے وہ انٹرنیٹ اور ہزاروں ایسے دیگر مسائل کے اندر تن تنہا چھوڑ دیے گئے گئے۔ پچھلی حکومتوں پر ہر بات کا ملبہ ڈالنے والے یہ کیوں بھول گئے کہ ان کے دور میں تو طلبہ کو لیپ ٹاپ اور موبائل کی سہولت سے آراستہ کیا گیا تھا لیکن آپ کم از کم طلباء کو فری اور معیاری انٹرنیٹ کی سہولت ہی مہیا کر دیتے جہاں یہ گاؤں میں بیٹھ کر اپنی کلاسز کو لے سکتے لیکن افسوس پاکستان میں دیہات کی اکثریت انٹرنیٹ تو دور کی بات بجلی اور صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔

اس کے علاوہ ایک مثبت قدم جس کو میں یہاں ضرور سراہنا چاہوں گا وہ یہ تھا کہ ٹیلی ویژن پر ٹیلی سکول کے نام سے کلاسز کا اجراء کیا گیا۔ میرے نزدیک یہ انتہائی مثبت قدم تھا اور شاید یہی وہ واحد مثبت قدم تھا لیکن اس وقت میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہ گئی جب اسی ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر آپ نے تمام طلبہ کو بغیر امتحان لئے پاس کرنے کی نوید بھی سنا دی۔ اب آپ مجھے بتائیں پاکستان جہاں پہلے ہی تعلیم کے لیے لوگوں کو سمجھانا پڑتا ہے قائل کرنا پڑتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سال امتحانات نہیں ہوں گے کون ان کلاسوں کو جوائن کرے گا جو ٹیلی ویژن پر چلائی گئی۔

آخر جب آپ نے لاک ڈاؤن 15 جولائی تک لگا ہی دیا تھا تو آپ کو ایسی کیا مجبوری تھی کہ آپ اپریل کے اندر طلباء کو پاس کرنے کی نوید سنا رہے ہیں اب ان دو ماہ میں طلبہ کا جو نقصان ہوگا اس کا خمیازہ کون بھگتے گا۔ باتیں تو اور بھی بہت ہیں لیکن میں اس بات پر آج کی اس تحریر کو ختم کرنا چاہوں گا کہ اللہ ہمیں اس وبا سے کہیں دور لے جائے ورنہ ہم اس قابل نہیں کہ بدلتے ہوئے نظام میں خود کو ڈھال سکیں۔ میری بس یہی دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اس وبا سے محفوظ رکھے اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments