قحط


سشانت سنگھ کی خود کشی کی خبر سنی۔ دل دکھ سے بھر گیا۔ کیا گزری ہو گی اس باپ پہ جس نے جوان بیٹے کی خود کشی کی خبر سنی۔ ماں باپ تو بچوں کی ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کرتے۔ یہ دکھ کیسے سہا جائے گا۔ اور یہ صرف دکھ نہیں روگ بن گیا ان کے لئے عمر بھر کا روگ۔ طبعی موت پہ تو صبر کیا جا سکتا ہے اس موت پہ صبر آئے بھی تو کیونکر۔

چشم تصور میں اس شخص کا چہرہ آ رہا ہے۔ جو نہ جانے ذہنی ابتری کے کس درجے پہ ہو گا کہ زندگی کو ، اپنی تمام تر خوبصورتیوں سمیت، اتنا ارزاں سمجھا۔ باپ، بہن بھائی، کیرئیر سب کچھ پس پشت چلا گیا۔ کوئی خواہش باقی رہ گئی تو موت کی خواہش۔ ۔ ۔ اور وجہ کیا تھی؟ ڈپریشن، ذہنی عارضہ۔

ڈپریشن، فرسٹریشن جیسے ذہنی عوارض، جنہیں ہم کسی گنتی میں شمار نہیں کرتے۔ ان بیماریوں کو ہم بیماری ہی نہیں سمجھتے۔ جو ایڈز، کینسر جیسے جسمانی امراض سے زیادہ خطرناک ہیں۔ کیونکہ ان کی تشخیص بھی بے حد مشکل اور علاج اس سے زیادہ۔ ( کیونکہ اس کے لئے اپنے پیاروں کا وقت چاہیے ہوتا ہے اور وقت کے معاملے میں ہم اتنے تہی دامن ہو گئے ہیں کہ کسی کے لئے وقت ہی نہیں )

پچھلی چند دہائیوں سے ذہنی امراض میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہر دوسرا شخص ڈپریشن میں مبتلا ہے۔ غصہ، جھنجھلاہٹ، افسردگی، اعصابی دباؤ، احساس تنہائی، خوف کا فوبیا، اضطراب۔ یہ سب تو بالکل عام ہو چکا ہے۔ ہر شخص ان بیماریوں کا شکار ہے۔ اور جب یہ بیماریاں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں تو خود کشی جیسا فعل سرزد ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد خود کشی کرتے ہیں۔ یعنی ہر چالیس سیکنڈ میں ایک شخص خود کشی کرتا ہے۔ پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے 2.9 افراد خود کشی کرتے ہیں، جن میں مردوں کی شرح 2.7 اور خواتین میں 3 فیصد ہے۔ اور روز بروز اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

زندگی خوبصورت تھی۔ جب موبائل فون، کمپیوٹر، ٹیلی ویژن ہماری دسترس سے دور تھے۔ پیسے کمانے کی دھن نہ تھی۔ لوگوں کے پاس وقت ہی وقت تھا۔ ایک دوسرے کے گھر جانے کے لئے اجازت کی ضرورت نہ تھی۔ مائیں بچوں کو موبائل فون سے نہ بہلاتی تھیں۔ الگ الگ کمروں کا تصور نہ تھا۔ زندگی بناوٹ سے پاک تھی۔ میل جول میں سادگی تھی۔ ملتے وقت تین دفعہ معانقے کی روایت تھی (اب صرف گال سے گال مس کیا جاتا ہے، بسا اوقات وہ بھی نہیں، کرونا نے تو فاصلے اور بڑھا دیے ہیں، معانقہ تو دور کی بات مصافحے سے بھی گئے ) اور لمس میں تو بہت طاقت ہوتی ہے، شفا ہوتی ہے۔ ہر پریشانی، تکلیف اور مصیبت سے نجات کی طاقت۔

دیہاتوں میں تو معاملہ ہی اور تھا۔ وقت بے وقت ایک دوسرے کے گھر جانا، کبھی لسی لینے، دودھ لینے۔ ۔ ۔ شام میں بزرگوں کا چوپال میں اکٹھا ہونا، بچوں کا گلیوں میں چھپن چھپائی کھیلنا، عورتوں کا روٹیاں لگوانے تندور پہ جانا، کچھ دوسروں کی سننی، کچھ اپنی سنانی۔ ذہن و دل کا بوجھ ہلکا کر کے گھروں کو لوٹ جانا۔

(دیہاتوں میں یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت اب بھی موجود ہے )

پھر یوں ہوا کہ ہم جدید دنیا میں، سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں آ گئے، چاند تک رسائی کے خواب دیکھنے لگے اور اپنی روحانی ضروریات بھول گئے یعنی اپنا آپ بھول گئے۔

دیواریں اونچی ہو گئیں، گھر کی بھی۔ ۔ ۔ دل کی بھی۔ دولت کو خوشی کا باعث سمجھا جانے لگا۔

اب ہم ”سب اچھا ہے، ہم دنیا کے خوش قسمت ترین لوگ ہیں“ کے لیبل لگائے پھرتے ہیں۔ کہیں ذات کا بھرم نہ ٹوٹ جائے، کوئی مذاق نہ اڑائے، کمزور نہ سمجھے۔

نہ کوئی سننے والا ہے نہ سنانے والا۔
یہ کیسا قحط ہے؟
یہ ہم نے کیا ظلم کر دیا اپنے ساتھ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments