یمن میں خانہ جنگی: تباہ حال یمن میں آخر جنگ ختم ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہی ہے؟


یمن

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن کی جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کا 60 فیصد سعودی عرب کی قیادت والے حملوں کا نتیجہ ہے

دنیائے عرب کا غریب ترین ملک یمن خانہ جنگی سے تباہ حال ہے۔

اس رپورٹ میں ہم یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ کون اِس جنگ کو ہوا دے رہا ہے اور کون کون اس میں شامل ہے۔

جنگ کس طرح شروع ہوئی؟

اس تنازعے کی جڑ عرب سپرنگ کی بغاوت کے بعد یمن میں استحکام لانے والی سیاسی منتقلی کی ناکامی میں پنہاں ہے۔

عرب خطے میں اٹھنے والی اس تحریک نے ایک عرصے سے یمن میں حکومت کرنے والے جابر حکمران علی عبد اللہ صالح کو سنہ 2011 میں اپنے نائب منصور ہادی کو اقتدار سونپنے پر مجبور کیا۔

منصور ہادی کو بحیثیت صدر متعدد قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن میں جہادیوں کے حملے، جنوب میں علیحدگی پسندی کی تحریک، سکیورٹی اہلکاروں کی عبد اللہ صالح کے ساتھ مسلسل وفاداری کے علاوہ بدعنوانی، بیروزگاری اور غذائی اشیا کا عدم تحفظ شامل تھا۔

یہ بھی پڑھیے

یمن کی جنگ بندی کیا دیرپا ثابت ہوگی؟

’یمن جنگ میں امریکہ سعودی عرب کی مدد نہ کرے‘

’یمن کی بیوقوفانہ جنگ سعودی عرب کے فائدے میں نہیں‘

یمن کی زیدی شیعہ اقلیت کی حوثی تحریک (جو باقاعدہ طور پر انصار اللہ کے نام سے جانی جاتی ہے) جو گذشتہ ایک دہائی کے دوران منصور ہادی کی حکومت کے خلاف کئی بار بغاوت کر چکی تھی، اس نے نئے صدر کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شمالی صوبہ صعدہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

حوثی

حوثی جنگجو صنعا میں سنہ 2014 میں داخل ہوئے اور اگلے سال تک پورے شہر پر قابض ہو گئے

منتقلی سے مایوس ہو کر بہت سے یمنیوں نے، جن میں سنی بھی شامل تھے، حوثیوں کی حمایت کی اور سنہ 2014 کے آخر اور سنہ 2015 کے اوائل میں باغیوں نے رفتہ رفتہ دارالحکومت صنعا پر بھی قبضہ کر لیا۔

حوثیوں اور علی عبداللہ صالح کی وفادار سکیورٹی فورسز نے پورے ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد منصور ہادی کو مارچ سنہ 2015 میں بیرون ملک فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔

عبداللہ صالح کی وفادار فوج کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس نے اقتدار کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنے پرانے دشمن حوثیوں کی حمایت کی۔

یمن میں ایک ایسے گروپ کے عروج سے جو ان کے خیال میں علاقائی شیعہ طاقت ایران کی حمایت سے پروان چڑھ رہا تھا، سعودی عرب اور آٹھ دیگر عرب ریاستوں، جن میں زیادہ تر سنی ممالک شامل ہیں، نے یمن میں ایرانی اثر و رسوخ کو ختم کرنے، حوثیوں کو شکست دینے اور منصور ہادی کی حکومت کو بحال کرنے کے لیے فضائی مہم شروع کر دی۔

اس اتحاد کو امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے تکنیکیی اور انٹیلیجنس سطح پر تعاون ملا۔

اس کے بعد سے کیا ہوا؟

جنگ کے آغاز پر سعودی حکام نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ صرف چند ہفتوں تک جاری رہے گی لیکن چار سال بعد بھی یہ جنگ جاری ہے۔

اگست سنہ 2015 میں اتحادیوں کے زمینی دستے یمن کے جنوبی بندرگاہ والے شہر عدن میں اترے اور انھوں نے اگلے چند مہینوں کے دوران حوثیوں اور ان کے اتحادیوں کو جنوب کے بیشتر حصوں سے نکالنے میں مدد فراہم کی۔

منصور ہادی کی حکومت عارضی طور پر عدن میں قائم ہوئی لیکن اسے عوام کو بنیادی سہولیات اور تحفظ فراہم کرنے میں دشواریوں کا سامنا رہا جبکہ صدر بذات خود زیادہ تر سعودی عرب میں مقیم رہے۔

اس دوران حوثیوں کو صنعا اور شمال مغربی یمن سے نکالا نہیں جا سکا۔ دریں اثنا وہ یمن کے تیسرے شہر تعز کا محاصرہ برقرار رکھنے اور سعودی عرب پر مسلسل میزائل اور ڈرون حملے کرنے میں کامیاب رہے۔

ستمبر سنہ 2019 میں سعودی عرب کے علاقے بقیق اور خریص پر فضائی حملے ہوئے جس سے مملکت کی نصف تیل کی پیداوار میں خلل پڑا۔ یہ دونوں علاقے دنیا میں پانچ فیصد تیل فراہم کرنے والے علاقے ہیں۔

صالح اور ہادی

علی عبداللہ صالح (دائیں) کو مجبوراً اقتدار المنصور ہادی (بائیں) کو سونپنا پڑا

حوثیوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی لیکن سعودی عرب اور امریکہ نے ایران پر ان حملوں کا الزام عائد کیا۔

جزیرۃ العرب میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں (اے کیو اے پی) اور اس کی حریف جماعت دولت اسلامیہ (آئی ایس) کی مقامی حلیف تنظیم نے یمن کے انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے جنوبی علاقے پر قبضہ کر لیا اور بطور خاص عدن پر مہلک حملے کرتے رہے۔

نومبر سنہ 2017 میں سعودی دارالحکومت ریاض کی طرف میزائل حملے نے سعودی عرب کی نگران قیادت کے اتحاد کو یمن کی ناکہ بندی سخت کرنے پر مجبور کیا۔ اس نے کہا کہ وہ ایران کی جانب سے باغیوں کو ہتھیاروں کی سمگلنگ روکنا چاہتا ہے۔

تہران اس الزام کی تردید کرتا ہے لیکن پابندیوں کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا اور ایندھن کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا اور اس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ افراد کو غذائی عدم تحفظ کا مسئلہ درپیش تھا۔

صنعا کی سب سے بڑی مسجد کے کنٹرول کے لیے ہونے والے مہلک تصادم کے بعد نومبر سنہ 2017 میں حوثیوں اور علی عبداللہ صالح کے درمیان اتحاد بھی ٹوٹ گیا۔ حوثی جنگجوؤں نے دارالحکومت کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک آپریشن لانچ کیا اور علی عبداللہ صالح مارے گئے۔

جنگ

سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد نے سنہ 2015 میں یمن کے معاملات میں مداخلت کی

جون سنہ 2018 میں اتحادی افواج نے بحر احمر کے شہر حدیدہ سے حوثیوں کا قبضہ ختم کرنے کے لیے ایک بڑا حملہ شروع کرتے ہوئے میدان جنگ میں آنے والے تعطل کو توڑنے کی کوشش کی۔ خیال رہے کہ حدیدہ کی بندرگاہ یمن کی تقریبا دو تہائی آبادی کے لیے بنیادی لائف لائن ہے۔

اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ بندرگاہ کی تباہی ایک ایسا خاردار نقطہ جس کے بعد قحط کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہونے والے جانی نقصان سے بچنا ناممکن ہو گا۔

چھ مہینے کی لڑائی کے بعد فریقین نے سویڈن میں ہونے والے مذاکرات میں جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ سٹاک ہوم معاہدے میں ان سے یہ کہا گیا کہ وہ حدیدہ سے اپنی افواج ہٹائیں، قیدیوں کے تبادلے کا طریقہ کار قائم کریں اور تعز کی صورتحال کو حل کریں۔

اس معائدے کے بعد سے اب تک سیکڑوں قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے لیکن ابھی تک حدیدہ سے فورسز کو ہٹانے کا کام شروع نہیں ہوا، جس سے یہ خدشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ سٹاک ہوم معاہدہ ناکام ہو جائے گا اور یہ کہ حدیدہ کے لیے جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی۔

جولائی سنہ 2019 میں یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے اہم حلیف متحدہ عرب امارات نے بین الاقوامی سطح پر اپنے طرز عمل پر تنقید کے بعد یمن سے اپنی فوج ہٹانے کا اعلان کیا۔

اگست میں سعودی عرب نواز حکومتی دستوں اور متحدہ عرب امارات کی حمایت والی جنوبی عبوری کونسل (ایس ٹی سی) جو کہ بظاہر جنوبی علیحدگی پسند تحریک ہے، کے مابین جنوب میں لڑائی چھڑ گئی۔

ایس ٹی سی کی وفادار فورسز نے، جس نے منصور ہادی پر بدانتظامی اور اسلام پسندوں سے تعلقات کا الزام عائد کیا تھا، عدن پر قبضہ کر لیا اور اس نے کابینہ کی واپسی سے منع کردیا تاوقتیکہ سعودی عرب نے نومبر میں اقتدار میں شراکت کا ایک معاہدہ طے نہ کروایا۔

اقوام متحدہ کو امید تھی کہ یہ معاہدہ خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے سیاسی تصفیہ کا راستہ صاف کردے گا لیکن جنوری سنہ 2020 میں حوثیوں اور اتحادی فوجوں کے مابین دشمنی میں اچانک اضافہ ہو گیا اور انھوں نے مختلف محاذوں پر لڑائی چھیڑ دی اور میزائل اور فضائی حملے کیے۔

اپریل سنہ 2020 میں ایس ٹی سی نے عدن میں خودمختاری کا اعلان کر دیا اور اس طرح اس نے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کو توڑتے ہوئے کہا کہ وہ بندرگاہ والے شہر اور جنوبی صوبوں پر حکومت کرے گی۔

سعودی عرب نے کورونا وائرس کے وبائی امراض کی وجہ سے اسی ماہ یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا لیکن حوثیوں نے اس کو مسترد کر دیا اور صنعا اور حدیدہ میں ہوائی اور سمندری ناکہ بندی اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

علیحدگی پسند

جنوبی علاقے میں سرگرم علیحدگی پسندوں نے منصور ہادی کی حامی فورسز کے خلاف جنگ کی

انسانی قیمت کیا رہی؟

مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یمن دنیا کے بدترین انسانیت سوز بحران کا سامنا کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ نے مارچ سنہ 2020 تک کم از کم 7700 عام شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور ان میں سے زیادہ تر اموات سعودی قیادت میں اتحادی افواج کے فضائی حملوں کے نتیجے میں ہوئی ہیں۔

یمن کے حالات پر نظر رکھنے والے مانیٹرنگ گروپس کا خیال ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ امریکہ میں قائم آرمڈ کنفلکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ (اے سی ایل ای ڈی) نے اکتوبر سنہ 2019 میں کہا تھا کہ اس نے براہ راست حملوں میں مارے جانے والے 12 ہزار شہریوں سمیت ایک لاکھ سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ کیں۔

سنہ 2019 میں 23 ہزار سے زیادہ ہلاکتوں کی اطلاعات تھیں جس کے سبب یہ یمن جنگ کا اب تک کا دوسرا سب سے مہلک سال بن گیا۔

غذاؤں کی قلت، بیماری اور خراب صحت کی وجہ سے ہزاروں دوسرے شہریوں کی ہلاکت ہوئی جسے روکا جا سکتا تھا۔

یمن

دولت اسلامیہ کے خود کش حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے

سیو دی چلڈرن نامی تنظیم نے اندازہ لگایا ہے کہ غذائيت کی شدید کمی کے سبب اپریل سنہ 2015 اور اکتوبر 2018 کے درمیان 85 ہزار بچے مر چکے ہیں۔

دو کروڑ 40 لاکھ آبادی یعنی ملک کی تقریبا 80 فیصد آبادی کو انسانی امداد اور تحفظ کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق تقریبا دو کروڑ افراد کو فوڈ سکیورٹی کی ضرورت ہے۔ ان میں سے تقریبا ایک کروڑ افراد ’قحط سے صرف ایک قدم دور‘ سمجھے جاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ بچے غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہیں جن میں سے پانچ سال سے کم عمر کے لگ بھگ تین لاکھ 60 ہزار بچے بھی شامل ہیں جو اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

ملک کی 3500 طبی سہولیات میں سے صرف آدھی مکمل طور پر کام کر رہی ہیں جبکہ تقریبا دو کروڑ افراد کو مناسب صحت کی سہولت تک میسر نہیں اور تقریبا پونے دو کروڑ لوگوں کے پاس پینے کے لیے صاف پانی یا مناسب حفظان صحت تک رسائی نہیں ہے۔

یمن

عرب سپرنگ کے نتیجے میں یمن میں جو تبدیلی آئی اس سے یمن اب تک باہر نہیں آ سک

اس کے نتیجے میں طبی عملہ ملک میں اب تک کے سب سے بڑے ہیضے کی روک تھام کے لیے جدوجہد کرتا نظر آیا جس کی زد میں تقریبا 22 لاکھ افراد آئے اور اس کی وجہ سے اکتوبر سنہ 2016 سے اب تک 3895 اموات ہوئی ہیں۔

اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ’پچھلے پانچ برسوں میں جنگ، بیماری اور بھوک کی مشترکہ تعداد سے تجاوز کر سکتی ہے۔‘

اقوام متحدہ نے مالی اعانت کے لیے بھی شدید اپیل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صحت کی اہم خدمات سمیت ملک میں اس کے کاموں کو انجام دینے میں فنڈ کی سخت کمی ہے۔

جنگ نے تقریبا ساڑے 36 لاکھ لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے۔

باقی دنیا کے لیے اس کی اہمیت کیا ہے؟

یمن میں جو کچھ ہوتا ہے وہ علاقائی کشیدگی کو بہت بڑھا سکتا ہے۔ یہ مغرب کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہے کیونکہ اگر یہ علاقہ زیادہ غیر مستحکم ہوتا ہے تو وہاں سے القاعدہ یا دولت اسلامیہ سے وابستہ گروپس اٹھ سکتے ہیں۔

تنازعے کو شیعہ حکومت والے ایران اور سنی حکومت والے سعودی عرب کے مابین علاقائی طاقت کی جدوجہد کے ایک حصے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

صدر ہادی کے حمایتی خلیجی ممالک کی ریاستوں نے الزام لگایا ہے کہ ایران نے حوثیوں کو مالی اور عسکری طور پر استحکام فراہم کیا لیکن ایران نے اس کی تردید کی ہے۔

یمن سٹریٹجک لحاظ سے بھی اہم ہے کیونکہ یہ بحر احمر کو خلیج عدن کے ساتھ جوڑنے والے ایک آبنائے پر بیٹھا ہے جو دنیا کے بیشتر تیل کی گزرگاہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp